الوادع جنید جمشید
مکرمی! بچپن کی بھول بھلیوں میں سنا اسے، لڑکپن کی نادانی میں گوندھی گھڑیوں میں اس کی آواز جیسے میرے ساتھ رہی… دن میں دوستوں کے ساتھ اور رات میں بستر میں چھپائے واک مین میں… اس کے گیت سنتے ہوئے میرے اپنے جیب خرچ سے خریدے ہوئے سیل ختم ہوجاتے تھے، مگر دل نہ پھرتا تھا… اس کی ’’سانولی سلونی سی محبوبہ‘‘ پر جانے کیوں آنکھیں بند کر کے ’’اعتبار‘‘ کرنے کی روایت نے اتنا حساس بنادیا تھا کہ سپنے دیکھنے کی ایسی لت پڑی کہ آج بھی جیسے ایک سپنے میں ہوں۔ ڈرتا ہوں کہ ’’آنکھوں کو انکھوں نے جو سپنا دکھایا تھا‘‘ ٹوٹ نہ جائے۔ وہ گاتا تھا تو سینے کی لے ہی بدل دیتا تھا اور پھر ’’وہ شام‘‘ جب اس آواز نے دین کی محبت کو اوڑھا تو مجھ ایسے منافق بھی اپنی پیشانیوں کا قرض اتارنے کو مسجدوں میں دوڑے چلے گئے… ’’الٰہی تیری چوکھٹ پر… محمدؐ کا روضہ قریب آرہا ہے…میرا دل بدل دے‘‘ کی دل دوز صدائیں جانے کتنی ہی آنکھوں کو آنسوئوں سے بھگوتی چلی گئیں… میں نے اس گناہ کی بھیڑ میں بھی سنا… میں نے اسے پارسائی کے زینے اترتے لمحوں میں بھی سنا، وہ شخص جانے مجھے کیوں اتنا عزیز تھا کہ اس کی شہادت پر دل چھلنی ہے، آنکھیں رو رو کر ہلکان ہیں مگر تھک نہیں رہیں… آج پرسہ دو کہ مجھے اعتبار آئے… نہیں… مگر… ’’اعتبار بھی آہی جائے گا‘‘… جنید جمشید تجھے رب کی بہشت مبارک۔(شبر علی چنگیزی…لاہور)