• news
  • image

ایشیاءبحر الکاہل میں امریکہ کا محور

معروف امریکی مصنف اور تجزیہ نگار کرٹ ایم کومپبیل کی کتاب بعنوان ”محو ر:امریکی سیاسی تدابیر کا ایشیاءمیں مستقبل“ حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے امریکہ کی ایشیاءمیں محور پالیسی پہ روشنی ڈالتے ہوئے گہری بصیرت فراہم کی ہے۔ یہ کتاب پاکستان کیلئے بڑی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ امریکہ کی ایشیاءمیں محور پالیسی کا مقصد چین کے ایشیاءمیں بڑھتے ہوئے ااثر و رسوخ کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرناہے۔ حالانکہ پاکستان چین کا سب سے بڑا حلیف ہے اور چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کے انعقاد سے خطے کے معاشی اور سیاسی مستقبل پہ گہرا مثبت اثر پڑے گا لیکن فاضل مصنف نے اقتصادی راہداری کا تذ کرہ تک کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کرنے کے بعد امریکہ نے بحرالکاہل اور ایشیاءکا رخ کیا ہے جہاں وہ چین کے گرد حصار باندھنا چاہتا ہے۔ بھارت جو چین سے رقابت رکھتا ہے، امریکہ کی ایشیاءمیں محور پالیسی کے انعقاد میں امریکی حلیف بننے پہ بخوشی راضی ہے۔ یو ں بھارت کےلئے ایک پنتھ دو کاج کے مصداق وہ امریکی دفاعی امدادسے خود کو علاقے کاچودھری بننے کے خواب کو بھی پورا کر رہا ہے اور چین کو نیچا دکھا کر اور ساتھ ہی اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ناکام بنا کر وہ چین اور پاکستان دونوں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ کرٹ کومپبیل کی کتاب بہر حال امریکہ کی ایشیاءمحور پالیسی کو گہرائی میں جا کر سمجھنے میں مدد گار ثابت ہو گی۔ پاکستان اور چین دونوں کو امریکہ پالیسی کا تجزیہ کرنے میں مدد حاصل ہوگی تا کہ وہ پالیسی کے مقابلے میں جوابی حکمت عملی تیار کر سکیں۔ اس تجزیئے میں امریکہ کی ایشیاءمحور پالیسی میں شامل دس نکاتی حکمت عملی کا بغور مطالعہ لازمی ہے۔ یہ دس نکاتی حکمت عملی کرٹ کومپبیل نے خود اپنی سفارشات میں پیش کی ہیں تا کہ امریکی ایشیاءمحور پالیسی پہ عملدر آمد میں ساز گار ثابت ہوں۔ امریکہ کی ایشیاءمیںمحور پالیسی کا دارو مدار دس بنیادی عناصر پر ہے۔ ان عناصر میں محور کی وضاحت ، عوامی رائے عامہ کو صدارتی خطابات اور بیانات کے ذریعہ متحرک کرنا، ایک سالانہ حکمت عملی کی دستاویزات مرتب کرنا جن کے ذریعہ امریکی حکومت کے ایشیاءسے متعلق نقطہ نظر کو اجاگر کرنا ، امریکہ کے خطے میں اپنی اتحادیوں کےساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنا، ان حلیفوں میں جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور فلپائن شامل ہیں۔ کرٹ کومپبیل وضاحت کرتے ہیں کہ ان حلیفوں کے ساتھ تعلقات کو ایک مضبوط اور جامع حکمت عملی کے تحت وسیع تر ایشیاءپالیسی کے فریم ورک میں مربوط کرنا لازمی ہے تا کہ چین کے ابھرتے ہوئے خدو خا ل کا توڑ تلاش کیا جا سکے۔ اور تائی وان ،بھارت، تھائی لینڈ ، ویت نام، انڈو نیشیاء، ملائشیاءاور بحر الکاہل کی جزیرہ نما ریاستوںکو شامل کرکے آزاد تجارتی معاہدو ں اورا قتصادی، سیاسی تدابیر تیارکی جائیں تا کہ علاقائی اداروں بشمول فوج ، جمہوری اقدار کو پروان چڑھایا جائے اور یورپی شراکت داروں کو بھی چین کے عروج پہ قدغن لگانے کی حکمت عملی میں شامل کیا جائے۔فاضل عالم اور مصنف اپنے دلائل کا دارومدار ایک دس نکاتی فارمولے کے ذریعہ پیش کرتا ہے جس میں وہ اپنی گزارشات کو سیاسی ، اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو بنیا د بناتا ہے ۔ یہ تعلقات کرہ ارض کے مختلف ممالک سے ہونے چاہیں۔جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے کہ چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری کا نام تک لینا مصنف نے گوارا نہ کیا حالانکہ مستقبل قریب میں امریکہ اور اسکے حلیفوں ایشیاءبحرالکاہل کے خطے اور سمندی گزرگاہوںکے ا ستعمال کی خاطر چین اور پاکستان کے زیر استعمال اور تسلط گوادر کی بندر گاہ پہ ہوگا۔ مصنف کے سفارتی تجربے کے پیش نظر اور خطے سے متعلق وسیع مطالعے کی روشنی میں چین۔ پاکستان اقتصادی راہداری کو نظر انداز کرنا اچنبے کی بات ہے۔ کومپبیل کو امریکہ کی ایشیاءمحور پالیسی کا موجد تصور کیا جاتا ہے۔ و ہ مشرق وسطیٰ اور افغانستان کے علاہ ایشیاءاور بحرالکاہل کے خطے میںامریکی فوجوں کے استعمال کو فوقیت دیتا ہے۔ وہ یہاں د وباتیں نظر انداز کر رہا ہے۔ اول تو یہ کہ چین کوئی تر نوالہ نہیںجو امریکی طاقت یا فوجوں کی موجودگی سے مرعوب ہو کر دب جائے۔ دوسرے یہ کہ افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں استحکام اور امن قائم کئے بغیر امریکہ اپنی ایشیاءبحرالکاہل محور پالیسی کے اقتصادی پہلوﺅں کو لاگو کرنے میں ناکامی کا سامنا کریگا۔ کومپبیل کے اپنے تجزیے کے مطابق افرا تفری اور چپقلش سے پُرمشرق وسطیٰ ایشیاءکی صدی کےلئے سازگار نہیں۔ کتاب کے دیباچے اور مختلف ذرائع جن سے فاضل مصنف مستفید ہوئے ، کے سر سری جائزے سے بھی پتا چلتاہے کہ بھارتی لابی امریکہ کی ا یشیاءمحور پالیسی کو وضع دینے میں فعال اور متحرک ہے ۔مصنف نے اپنی کتاب کی تکمیل میں متعدد بھارتیوں کی مدد کا اعتراف کیا ہے اور امریکہ کو ویتنام ، منگولیا، برما اور تائی وان سے تعلقات کو فروغ دینے کی سفارش کی ہے لیکن اس حکمت عملی کی تشکیل اور اسٹر اٹیجی کو وضع دینے، جس میں بھارتی اثرو رسوخ واضح ہے ۔، پاکستان کاکوئی تذکرہ نہیں۔ چین‘ پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کوبے انتہاہ چیلنجز درپیش ہیں اس پروجیکٹ کا بیشتر حصہ پاکستا ن کے سب سے پسماندہ اور چپقلش زدہ صوبے بلوچستان سے گزر رہا ہے بھارت نے اس منصوبے کوسبو تاژ کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی راءکے سینئر اہل کار کمانڈر کلبھوش یادو کے بلوچستان کی افغان سرحد کے قریب شہر چمن سے گرفتاری نے بھارتی سازشوں کے بہت سے رازا فشاءکر دیئے لیکن بھارت اب بھی اقتصادی راہداری کو ناکام بنانے کی سازش میںملوث ہے۔ دوسری جانب چین کونیچا دکھانے کی خاطر اس کیلئے مسائل کھڑا کرنے کی غرض سے امریکہ نے جنوبی چینی سمندر میں داقع چینی جزائر کو متنازعہ قرار دے کر چین کے پڑوسیوں کوورغلایا ہے کہ وہ چین کےلئے مسائل کھڑے کریں اور ان جزائر کی ملکیت سے متعلق عالمی ثالثی اداروں سے رجوع کریں۔
کرٹ کومپبیل کی کتاب میں پیش کی گئی دس نکاتی حکمت عملی کا بغور مطالعہ چین اور پاکستان دونوں کےلئے لازمی ہے۔ دونوں ممالک کو سر جوڑ کر امریکہ کی ایشیا ئی پالیسی کا توڑ نکالنے کی خاطر اپنی ایک جامع اور مربوط پالیسی وضع دینے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میںپاکستان اور چین کے سیاسی رہنما، عوام اور مفکروں اور تجزیہ نگاروں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے تاکہ اس کا سدباب ،تلاش کیا جائے۔جہاں تک امریکہ اور بھارت کا تعلق ہے ، امریکہ کی ایشیاءپالیسی محور کے انعقاد میں ابھی سے رکاوٹیں حائل ہو گئی ہیں۔ فلپائن جو دوسری جنگ عظیم سے امریکہ کا روایتی حلیف تھا جہاں گزشتہ 75برسوں سے امریکی فوجی اڈے قائم تھے نے امریکہ کو نوٹس دے دیا کہ امریکہ فوری طور پر فلپائن سے فوری طور پرامریکی فوجوں کا انخلاءمکمل کرے۔دوسری جانب روس کےخلاف امریکہ کی پالیسیوں نے روس کو مجبور کر دیاکہ وہ چین سے اپنے تعلقات میں بہتری لائے ۔ علاوہ ازیں اطلاعا ت کے مطابق روس نے چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری میں شمولیت اور گوادر کی بندر گاہ سے اپنے سامان کی ترسیل میں دلچسپی کا اظہا ر کر دیا ۔ بھارت عرصہ دراز سے ایران کی سر زمین کو بھی پاکستان کےخلاف سازشوں کواستعمال کر رہا تھا۔ بھارت نے ایرانی بندر گاہ چا بہار اور افغانستان میں ایرانی سرحدتک زنجران ، دلاآرام شاہراہ تعمیر کی تاکہ افغانستان اور وسی ایشیاءکے ممالک گوادر کے بجائے چاہ بہا ر کے ا ستعمال کوفوقیت دیں لیکن ایرانی صدر نے پاکستان کے وزیر اعظم سے چین ۔ پاکستان اقتصادی راہدری میں شمولیت کی دراخوست دے کر بھارتی منصوبوں کو خاک میںملا دیا۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔

سلطان محمود حالی

سلطان محمود حالی

epaper

ای پیپر-دی نیشن