غیرت کے نام پر قتل‘ میڈیا کوریج سے کم از کم مسئلہ پر بات ہونے لگی: بی بی سی
اسلام آباد (بی بی سی)غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا فعل ہے جس میں زیادہ تر خواتین ہی کو قتل کیا جاتا ہے۔ آج کی 21ویں صدی میں یہی رویے شدت کے ساتھ موجود ہیں۔ فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ اب ہمیں کہیں کہیں یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ نام نہاد اصول اور رسم و رواج ہمارے معاشرے کے لیے کتنے تباہ کن ہیں۔ دھیرے دھیرے سے معاشرے میں یہ احساس اور شعور پیدا ہونے لگا ہے کہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ خاص طور پر خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک، تشدد اور ظلم کی داستانیں اب زبان پر آنے لگی ہیں۔ ان پر بحث، مباحثہ یا کم از کم بات تو ہونے لگی ہے۔ کچھ لوگ شاید یہ کہیں کہ پاکستانی میڈیا کی کوششوں ہی سے تو یہ سارے واقعات عوام اور پھر حکامِ بالا تک پہنچتے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ یقیناً غیرت کے نام پر قتل کے واقعات اور رسم و رواج کے ہاتھوں ماری جانے والی خواتین اور بچیوں کی کہانیاں ہمارے سامنے لانے میں اخبارات، ریڈیو، ٹی وی چینلوں اور سماجی میڈیا بہت بڑا ذریعہ بنے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے اگر میڈیا اتنا ہی باشعور، ذمہ دار اور حساس ہے تو پھر خواتین کے ساتھ ظلم اور تشدد کی خبریں معاشرے میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے میں ناکام کیوں رہی ہیں؟ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے ہمارا میڈیا خواتین اور ان کے مسائل کو کتنا وقت، جگہ اور اہمیت دیتا ہے۔ کیا ہر روز ہونے والے 'قتل برائے غیرت' اسی طرح سے میڈیا میں اپنی جگہ بنا پاتے ہیں جس طرح قندیل بلوچ کا قتل میڈیا اور پھر اس کی وساطت سے پاکستان اور دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا تھا؟ جواب نفی میں ہو گا۔ اخبارات کی بات کریں تو ماسوائے چند واقعات کے بہت کم 'قتل برائے غیرت' اس طرح سے رپورٹ ہوتے ہیں جس طرح قندیل کا کیس۔ روزانہ ایک، دو قتل ضرور ہوتے ہیں اور اخبارات انھیں رپورٹ بھی کرتے ہیں مگر زیادہ تر خبریں ایک کالم میں تین یا چار سطروں پر ہی مشتمل ہوتی ہیں۔ بہت سی خبریں تو ریڈیو یا ٹی وی تک پہنچ ہی نہیں پاتیں یا پھر انھیں وہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اخبارات انہیں رپورٹ کرتے ہیں مگر جب دیکھیں کہ خبر پیش کیسے کی گئی۔ تو پھر ہم جان پاتے ہیں‘ زیادہ تر خبروں کا زور غیرت پر ہی ہوتا ہے اور اس عمل کو بہت حد تک جواز بناکر صحیح قرار دے دیا جاتا ہے۔