شاہ محمود کے ایاز صادق کو سپیکر نہ کہنے پر ہنگامہ‘ غنڈہ گردی کے ریمارکس‘ سعد رفیق کی معذرت
اسلام آباد (خصوصی نمائندہ+ نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی کے بعد بدھ کو ملتوی ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز بھی مقررہ وقت سے دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اور ایک بار پھر ایوان میں شور شرابہ، شیم شیم اور نو نو کے نعرے لگائے گئے۔ حکومتی بینچوں پر بیٹھے ارکان نے شور شروع کیا۔ خواجہ سعد رفیق ٗ شیخ آفتاب اور خواجہ آصف اپنے ارکان کو خاموش کراتے رہے۔ پوائنٹ آف آرڈر پر تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی کا خطاب شروع ہوتے ہی حکومتی ارکان نے نعرے بازی شروع کردی جس کی وجہ سے شاہ محمود کو کئی بار تقریر روکنی پڑی عابد شیر علی اور شاہ محمود میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ شاہ محمود قریشی نے جذباتی انداز میں تقریر کی اور مطالبہ کیا کہ خواجہ سعد رفیق نے مجھ سمیت تمام ارکان جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں انہیں غنڈہ کہا اس پر وہ معافی مانگیں اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے ایوان میں جھوٹ بولا ہے اور وہ منی ٹریل کی تفصیلات ایوان میں پیش کریں اس سے قبل انہوں نے متعدد بار سپیکر قومی اسمبلی کو ایاز صادق کہا جس پر حکومتی ارکان نے شدید احتجاج کیا جس کی وضاحت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سپیکر نے تحریک استحقاق کے حوالے سے ہمارا موقف سنے بغیر مسترد کردی جس سے ہماری دل آزاری ہوئی۔ اگر گزشتہ روز ہماری بات مان لی جاتی تو شاید نوبت احتجاج تک نہ پہنچتی۔ انہوں نے کہا کہ چیئر کے احترام سے واقف ہوں‘ میں اس ایوان میں نیا نہیں آیا۔ انہوں نے کہا کہ سپیکر اس ایوان کا کسٹوڈین ہے۔ حکومت ہمیشہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتی ہے، وہ گنجائش ہمیں گزشتہ روز دکھائی نہیں دی۔ اگر سپیکر غیر جانبدار رہیں گے تو وہ ہمارے سپیکر رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف ایوان میں آکر ایوان اور عدالت کے بیان میں تضاد بیانی بارے وضاحت کریں اور سعد رفیق پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو غنڈہ کہنے پر معافی مانگیں ورنہ ان کو بولنے نہیں دیں گے۔ اجلاس شروع ہوا تو خورشید شاہ نے کہا کہ کافی وقت گزر گیا کل بھی شاہ محمود بات کرنا چاہتے تھے ناخوشگوار حالات کی وجہ سے نہیں کر سکے۔ مناسب ہو گا آج سارے پارلیمانی لیڈر بات کریں۔ سعد رفیق نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کا احترام کرتے ہیں ۔ اپوزیشن کو سننے کے لئے تیار ہیں۔ اگر پی ٹی آئی کے لیڈر پہلے بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ شاہ محمود نے کہا ملک کی دوسری بڑی جماعت کا ترجمان ہوں۔ اس آواز کو سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔ سپیکر بھی دبائو کا شکار اور جماعتی وابستگی کا اسیر ہو گیا اس لئے میں مخمصے کا شکار ہوں کہ آپ کو سپیکر کہوں یا ایاز صادق، سپیکر نہ بنے تو ن لیگ کا جیالا کہوں گا۔ اگر جیالا بننا ہے تو سپیکر کی کرسی چھوڑ کر ایوان میں آجائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں مزاجاً گستاخ نہیں ہوں ادب کرنا سکھایا گیا ہے۔ ایوان فیصلہ کرے کہ غنڈے ہیں۔ اس پر لیگی ارکان نے ہاں ہاں کے نعرے لگائے۔ جس پر پھر دونوں طرف سے شور مچایا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ سعد رفیق کو غنڈا کہنے پر معافی مانگنی ہوگی ورنہ ریلوے حادثوں کی وجہ سے پارلیمانی حادثہ ہو جائے گا۔ اگر خواجہ سعد رفیق معافی نہیں مانگیں گے تو ہم اسے بات نہیں کرنے دیں گے۔ رولنگ دینا سپیکر کا اختیار ہے لیکن مجھے سنے بغیر کس طرح رولنگ دی جا سکتی ہے‘ اندھیرے میں۔ سپیکر نے جواب دیا کہ وہاں لائٹس جل رہی تھیں۔ میری آواز دبانا پارلیمانی روایات کے برعکس ہے۔ مانتا ہوں کہ پانامہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف نے کل ٹی وی پر بیان دیا کہ پانامہ کیس پر بات نہیں ہو سکتی لیکن وزیر اعظم کی تضاد بیانی پر تحریک استحقاق آ سکتی ہے۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ نواز شریف کا ایوان میں بیان درست ہے یا سپریم کورٹ میں ان کا بیان درست ہے۔ ہم نے آئین کی کتاب نہیں رولز کی کتاب اچھالی تھی۔ اگر ہم غنڈے ہیں تو ہمیں ایوان سے باہر بھیج کر گرفتار کرا دیا جائے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ ملک میں سب سے بڑا ایشو کرپشن ہے۔ کرپشن کے انسداد کے لئے جماعت اسلامی نے 3 ترامیمی بل لائے تھے لیکن ان بلوں کے بارے سے ابھی تک پارلیمانی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے گزشتہ روز تحریک انصاف کے بارے میں حکومتی ارکان کی طرف سے مبینہ طور پر کہے گئے بعض الفاظ کارروائی سے حذف کرا دیئے۔ شاہ محمود نے کہا کہ گزشتہ روز تحریک انصاف کے ارکان کے احتجاج کے دوران حکومتی ارکان کی طرف سے بعض نامناسب الفاظ استعمال کئے گئے۔ اس پر سپیکر نے کہا کہ کیونکہ اس وقت ایوان میں تحریک انصاف نعرے بازی کر رہی تھی ان تک ایسی کوئی آواز نہیں پہنچی اگر کوئی ایسے الفاظ کارروائی کا حصہ بنے ہیں تو وہ کارروائی سے حذف کئے جائیں۔ قانون‘ آئین اور اپنے حلف کی پاسداری کروں گا اور غیر جانبداری سے اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا۔ پی ٹی آئی کے ممبران کے استعفے کے معاملے پر میں نے انصاف سے کام لیا۔ چالیس دن غیر حاضری کے معاملے میں اپنا رول ادا کیا اس میں اپوزیشن نے میرا ساتھ دیا ہے۔ مجھ پر کنٹینر پر تنقید جو کی گئی اس کا بدلہ یہاں اتارنا مناسب نہیں سمجھتا۔ انہوں نے کہا کہ کل جو ہوا اس کا سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہوا جو آئین کی مقدس کتاب کو اٹھا کر پھینکا گیا۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا ہے کہ حکومت احتساب بل کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا وعدہ پورا کرے۔ جوابی تقریر میں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پانامہ پیپرز والے معاملے کا ہم خود پیچھا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ آئندہ الیکشن میں ہم پانامہ پیپرز کا چھابہ اٹھا کر نہیں جاسکتے‘ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں بیان کو تسلیم کرتے ہیں وہ ایک جنرل سٹیٹمنٹ تھی جبکہ سپریم کورٹ میں ثبوتوں کے ساتھ تفصیلی بیان دیا گیا‘ پانامہ پیپرز کا معاملہ عدالت عظمیٰ پر چھوڑ دیا جائے اور بغیر ثبوت الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے کیونکہ لوگوں کے چہروں پر کیچڑ ملنے کی سیاست نہیں چل سکتی‘ جمہوریت کے استحکام کے لئے ہمیں ماضی کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کی بجائے مل کر چلنا ہوگا۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں بات کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ گزشتہ روز اسمبلی میں جو ہوا ہے ہماری قیادت کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ کا استعمال ہوا تو پھر صورتحال ایسی ہوئی، سمجھتا ہوں کہ ایک دوسرے کی عزت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب میری قیادت کے خلاف غیر پارلیمانی الفاظ استعمال کئے گئے تو میں نے غنڈہ گردی کے لفظ استعمال کئے‘ اس پر معافی مانگتا ہوں اور الفاظ واپس لیتا ہوں۔ استعفیٰ دیدیں تو سینے سے لگالیں‘ جب جھگڑا کرنا ہو تو اسمبلی آجائیں تو ہم قبول کرلیں‘ اس کا کریڈٹ ہمیں نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان سپریم کورٹ نہیں اور سپریم کورٹ کو پارلیمان نہیں بنایا جاسکتا۔ نواز شریف نے پارلیمان میں جو کچھ کہا ہے وہ خود اور پارٹی اس پر قائم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں جعلساز کہا گیا لیکن ہم جعلساز نہیں ہیں‘ ہم پھر بھی ایک پارٹی کی غیر پارلیمانی باتیں سنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بغیر ثبوت کے کیچڑ اچھالنے والی سیاست اب نہیں چلے گی۔ سعد رفیق نے کہا کہ ہماری قیادت نے ایک پیسہ بیرون ملک شفw نہیں کیا اور نہ ہی جھوٹ بولا۔ تحریک استحقاق عدالت پر اثر انداز ہوئی ہے اس لئے یہ فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی کرنے دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 35 پنکچروں کا بیان دینے والے سیاستدان نے اسے سیاسی بیان کہا تھا‘ وہ کیا اہمیت رکھتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ گالم گلوچ کے راستے پر چلنے والے فارغ ہو جاتے ہیں‘ ہم صرف چند باتوں پر آئینہ دکھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے دھرنا بند کیا گیا پھر دھرنا ٹو کارکن باہر اور قیادت پش اپ لگاتی رہی۔ اب اسمبلی میں استدعا ہے ضرور آئیں اور عوام کے ایشوز اجاگر کریں۔ تنخواہ‘ اعزازیہ لیتے ہیں تو قانون سازی میں بھی حصہ لیا کریں۔ اسحاق ڈار نے ایوان میں پیار محبت پیدا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک پورے کا احترام کرنا چاہئے جس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعہ کی صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا۔ اس سے قبل سپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا۔ جس میں وقفہ سوالات کی کارروائی معطل کرکے پانامہ پیپرز کے حوالے سے ایوان میں اپوزیشن کو بات کرنے کا موقع دیا گیا۔ قبل ازیں 4 بجے شروع ہونے والا اجلاس 6 بجے کے بعد شروع ہوا اور اس میں خورشید شاہ کی طرف سے مصالحت کی کوششوں نے اہم کردار ادا کیا۔ حکومت سرکاری بنچز کے پہلے بولنے کے حق سے دستبردار ہو گئی۔ اپوزیشن لیڈر کی پی ٹی آئی کو ایوان میں خطاب کرنے کی تجویز دی۔ تلخی پیدا ہوئی تاہم سپیکر نے صورتحال سنبھال لی۔ قبل ازیں سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزیراعظم کی ہدایت پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو چیمبر میں بلایا۔ اور لیڈر سے پی ٹی آئی کو منانے کا کہا۔ سعد رفیق نے کہا امید کرتا ہوں آپ میرے قائد کیلئے کہے نازیبا الفاظ کو واپس لیں گے۔ آپ بھی بڑے پن اور بڑے ظرف کا مظاہرہ کریں معافی مانگ لیں‘ ہم میں سے کوئی بھی غصہ کرے گا تو اس کی عقل ماری جائے گی۔ شاہ صاحب! آپ ہمیں جعل ساز کہیں تو کیا ہم جواب بھی نہ دیں؟ سعد رفیق نے اپنے خطاب کے دوران بار بار مداخلت پر پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی شیریں مزاری کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔ سعدرفیق نے کہا کہ بی بی میں آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ شاہ محمود قریشی نے سپیکر کو سردار ایاز صادق کے نام سے مخاطب کیا تو اجلاس میں شور شرابہ اور ہنگامہ شروع ہوا سپیکر نے عابد شیر علی کو چپ کرانے کی کوشش کی کہ شاہ محمود قریشی کو بولنے دیں اس دوران جمشید دستی بولنے لگے تو سپیکر نے جمشید دستی کو ہدایت کی کہ آستین نیچے اور بٹن بند کریں اپنی سیٹ پر بیٹھ جائیں۔ تحریک استحقاق پر شاہ محمود قریشی اور سپیکر کے درمیان نوک جھونک بھی ہوئی۔ سعد رفیق نے شیریں مزاری سے کہا کہ مجھے بات کرنے دیں باجی میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا پھر آپ کہیں گی غیرپارلیمانی بات کرتا ہوں۔ بعد ازاں شاہ محمود نے کہا کہ سعد رفیق نے معافی مانگ کر اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا۔