• news
  • image

تحریک انصاف نے اپنا مطالبہ منوا کر سپیکر قومی اسمبلی کے اجالاس کی کاروائی چلانے دی

بدھ کو بھی قومی اسمبلی کے اجلاس کا آغاز ہنگامہ آرائی شور شرابا ، شیم شیم اور نو نو کے نعروں سے ہوا لیکن حکومت نے پی ٹی آئی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی کو وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق سے پہلے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت دے کر پی ٹی آئی کو ’’رام ‘‘ کر لیا لیکن شاہ محمد قریشی کی جانب سے سپیکر کو ایاز صادق کا نام لے کر مخاطب کرنے پر حکومتی ارکان کی جانب سے شدید احتجاج اور نو نو کے نعرے لگائے ، پی ٹی آئی کے ارکان نے بھی جواباً نعرے بازی ، وزیر مملکت عابد شیر علی اور شیخ روحیل اصغر شاہ محمود کی طرف سے بار بار سپیکر کو ان کے نام سے پکارنے پر مشتعل ہو گئے وہ کچھ کر گذرنا چاہتے تھے لیکن ، خواجہ آصف ، سعد رفیق اور دیگر وزراء نے عابد شیر علی کو روک کر ماحول کو مکدر ہونے سے بچالیا ، سپیکر ایاز صادق ، شاہ محمود قریشی کے بار بار سپیکر کو مخاطب نہ کرنے پر بد مزہ نہ ہوئے اور انہتائی تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ’’ یہ میرا اور شاہ محمود کا معاملہ ہے ۔ حکومتی ارکان مداخلت نہ کریں‘‘ ان کی ہدایت پر بمشکل عمل ہوا تاہم سپیکر نے بدھ کو تحریک انصاف کی جان سے آئیں کی دست درازی پر اظہار ناراضی کیا شاہ محمود کی تقریر کے دوران بار بار ماحول مکدر ہوتا رہا ، شاہ محمود نے اپنی تقریر میں بار بار مطالبہ کرتے رہے کہ وزیر اعظم محمد نواز شریف ایوان میںآکر ایوان اور عدالت کے بیان میں تضاد بیانی بارے وضاحت کریں اور خواجہ سعد رفیق پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو’’ غنڈہ ‘‘کہنے پر معافی مانگیں ورنہ ان کو ایوان میں بولنے نہیں دیا جائے گا ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس تحریک انصاف کی ’’ضد‘‘ کی وجہ سے 2گھنٹے تک شروع نہ ہو سکا اس دوران پی ٹی آئی کو راضی کرنے کی کوشش کی جاتی رہی لیکن شاہ محمود قریشی اس بات پر بضد رہے کہ انہیں خواجہ سعد رفیق سے پہلے تقریر کرنے کا موقع دیا جائے تو اجلاس کی کارروائی معمول کے مطابق چلنے دیں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے حکومت کو شاہ محمود قریشی کو خواجہ سعد رفیق سے قبل پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کی اجازت دینے پر آمادہ ہو گئی سید خورشید شاہ کا کردار مفاہمانہ تھا انہوں نے کہا کافی وقت گزر گیا کل بھی شاہ محمود قریشی بات کرنا چاہتے تھے ناخوشگوار حالات کی وجہ سے بات نہیں کر سکے ۔ مناسب ہو گا آج سارے پارلیمانی لیڈر بات کریں حکومت نے اتنی خرابی کے بعد سیدخورشید شاہ کی بات کو قبول کر لیا اگر گذشتہ روز ہی سپیکر سردار ایاز صادق ، شاہ محمود قریشی کو بات کرنے کی اجازت دے دیتے تو تحریک انصاف کو ’’کھل کھیلنے‘‘ کا موقع ملتا ۔ خواجہ سعد رفیق ایک اچھے مقرر ہے اپنے سیاسی مخالفین سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اپنے قائد میاں نواز شریف کا جہاں بھر پور دفاع کرتے ہیں وہاں وہ اپنے سیاسی مخالفین سے دو دو ہاتھ کرتے رہتے ہیں انہوں نے جمعرات کو برد باری کا مظاہرہ کیا انہوں نے جہاں غنڈہ گردی کے بارے میں اپنے الفاظ واپس لے لئے وہاں انہوں نے شاہ محمود قریشی سے معافی مانگ لی جس سے ایوان کا ماحول خوشگوار ہو گیا انہوں نے کہا کہ میرا ’’نام نہاد اشرافیہ‘‘ سے تعلق نہیں سیاسی کارکن ہوں فوجی حکمرانوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے میری ’’ہڈی ‘‘ بڑی مضؓوط ہے بہر حال انہوں نے پی ٹی آئی کے ارکان سے کہا کہ اگر ہمارے لیڈر کو گالی دی جائے گی تو یہ بات ناقابل برداشت ہو گی ایک مرحلے پر جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ خواجہ سعد رفیق سے قبل تقریر کرنے کے لئے ضد کرنے لگے قبل اس کے کہ وہ واک آئوٹ کر جاتے انہیں خواجہ سعد رفیق سے قبل بات کرنے کا موقع دے دیا خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وہ اپوزیشن کو سننے کے لئے تیار ہوں جب شاہ محمد قریشی کو بات کرنے کا موقع مل گیا تو کہا کہ چیئر میرے حقوق کی محافظ ہے لیکن سپیکر نے مجھے بات کرنے کا موقع نہیں دیا ۔ سپیکر بھی دبائو کا شکار اور جماعتی وابستگی کا اسیر ہو گیا اس لئے میں مخمصے کا شکار ہوں کہ آپ کو سپیکر کہوں یا ایاز صادق ، اگر آپ ہائوس کے کسٹوڈین بنیں گے تو سپیکر کہوں گا ورنہ میں اسے مسلم لیگ ن کا جیالا کہوں گا ۔ اگر جیالا بننا ہے تو سپیکر کی کرسی چھوڑ کر ایوان میں آجائیں، میں حادثاتی طور پر ایوان میں آیا اور نہ حادثاتی طور پر بٹیرا پائوں تلے آنے پر شکاری بنا ہوں ۔سپیکر نے گزشتہ روز تحریک انصاف کے بارے میں حکومتی ارکان کی طرف سے مبینہ طور پر کہے گئے بعض الفاظ کارروائی سے حذف کرا دیئے ۔۔بالآخر ایوان بالا سے اپوزیشن نے چوہدری اعتزاز احسن جے تیار کردہ ’’ پانامہ پیپرز انکوائری بل 2016ء ‘‘کی کثرت رائے سے منظوری دیدی۔ اپوزیشن کے 38 ارکان کی طرف سے پانامہ پیپرز انکوائری بل2016ء کو پیش کیا گیا حکومتی رکن سینیٹر عائشہ رضا کی ترمیم پیش کرنے کی درخواست مسترد کردی اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بل کمیٹی سے ہوکر آیا ہے۔ ایوان اس پر غور کیلئے مزید مہلت طلب کرنے کی درخواست مسترد کر چکا ہے۔ اب یہ اس ایوان کی ملکیت ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ جس انداز سے یہ بل کمیٹی میں زیر عمل آیا وہ درست نہیں۔عائشہ رضا فاروق کی ترمیم پر ایوان کی رائے لی گئی تو 17 ارکان نے ترمیم کے حق جبکہ 38 نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ اس طرح ترمیم کثرت رائے سے مسترد کردی گئی۔ چیئرمین نے ایوان بالا سے بل کی شق وار منظوری حاصل کی۔ اس دوران حکومت اور اپوزیشن کے بعض ارکان نے بل کی مختلف شقوں میں ترامیم پیش کیں۔ حکومت کی طرف سے پیش کی جانے والی ترامیم کثرت رائے سے مسترد جبکہ اپوزیشن کی طرف سے پیش کی جانے والی بعض ترامیم منظور کرلی گئیں۔ چیئرمین نے بل کی حتمی منظوری کے دوران گنتی کے ذریعے ارکان کی رائے حاصل کی۔ بل کے حق میں 37 جبکہ مخالفت میں 15 ارکان نے ووٹ دیا۔ سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ اپوزیشن نے اخلاقی کمٹمنٹ کا لحاظ نہیں رکھا‘ ا انہوں نے اپوزیشن کے رویے پر افسوس کا اظہار کیا دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایوان بالا نے حکومتی کمپنیز آرڈیننس 2016ء کو نامنظور کرنے کے حوالے سے قرار داد کثرت رائے سے منظور کرلی ۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ کمپنیز آرڈیننس 2016ئ32 سال پرانا قانون کو تبدیل کر کے لایا گیا ہے سینیٹرز کی جانب سے اس کو پڑھے بغیر مسترد کرنے کی نئی روایت لائی جا رہی ہے چیئرمین سینٹ نے قرارداد پر ووٹنگ کرائی قرارداد کی حمایت میں 50 جبکہ مخالفت میں 18 ووٹ ڈالے گئے۔ حکومت کی جانب سے مخالفت کے باوجود قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی۔ سینیٹ میں اپوزیشن نے اپنی اکثریت کے بل بوتے اپنا بل منظور کر لیا جب کہ حکومت کا تیارکردہ کمپنیزآرڈیننس2016ء کو مسترد کر دیا اپوزیشن کا منظور کردہ بل اب قومی اسمبلی میں آئے گا جہاں حکومت اس بل کے ساتھ وہی سلوک کرے گی جو اپوزیشن نے سینیٹ میں حکومتی بل کے ساتھ کیا ہے سینیٹ سے حکومتی بل مسترد ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں آئے گا جہاں حکومت اپنی اکثریت کے بل پوتے پر اپنا بل منظور کرا لے گی اس بات کا امکان ہے دونوں ایوانوں کے اجلاس ملتوی کر کے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لے گی سینیٹ کے ارکان نے قومی سلامتی کیلئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کی تحریک پیش کردی ہے انہوں نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی منظوری کے وقت وزیراعظم میاں نوازشریف اور وزیرخزانہ کے قومی سلامتی پر پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی یقین دہانی کرائی تھی مگر اس پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن