مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس: مردم‘ خانہ شماری 15 مارچ سے بیک وقت شروع کرنے کی منظوری
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیراعظم محمد نواز شریف کی صدارت میں مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں چھٹی مردم و خانہ شماری اور خانہ شماری کا بیک وقت آئندہ سال 15 مارچ 2017ء سے آغاز کردیا جائیگا۔ اتفاق رائے سے مردم اور خانہ شماری کی منظوری دی گئی‘ مردم و خانہ شماری دو مرحلوں میں ہوگی تاہم یہ مرحلہ صوبوں میں بیک وقت شروع ہوگا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے اجلاس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور دیگر ارکان نے شرکت کی۔ کونسل کے اجلاس سے قبل وزرائے اعلیٰ نے وزیراعظم سے ملاقات بھی کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مردم شماری صوبوں کے ساتھ قریبی رابطہ رکھتے ہوئے کرائی جائیگی۔ ایک کمیٹی بنائی جائیگی جس میں وفاقی سیکرٹری شماریات اور صوبوں کے چیف سیکرٹریز شامل ہونگے۔ یہ کمیٹی مردم و خانہ شماری پر عملدرآمد کے ایشوز پر فیصلہ کریگی۔ اجلاس میں سی پیک منصوبوں کیلئے قومی سکیورٹی فنڈ قائم کرنے کا ایشو زیر غور آیا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل نے فیصلہ کیا معاملہ کو قومی فنانس کمشن کو بھیج دیا جو اس بارے میں فیصلہ کرنے کا درست فورم ہے۔ اجلاس میں قومی جنگلات پالیسی کی اصولی منظوری دیدی گئی۔ وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ہدایت کی گئی وہ صوبوں کے ساتھ مشاورت کرے اور صوبائی اختیارات میں کسی قسم کا تجاوز نہ کیا جائے۔ قومی جنگلات پالیسی سے وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کو تکنیکی اور مالی مدد فراہم کر سکے گی جو صوبوں کے اپنے پالیسی فریم ورک کے تحت ہوگی۔ اس سلسلہ میں بین الاقوامی کنونشنز پر عمل کو بھی یقینی بنایا جائیگا۔ اجلاس میں پنجاب کو نیٹ ہائیڈل منافع ادا کرنے کی توثیق کی گئی۔ اس سلسلہ میں 38 ارب 12 کروڑ روپے مالیت کا ناقابل تنسیخ ’’پرومیشنری نوٹ‘‘ جاری کیا جائیگا جو ایک سال کی میعاد کیلئے ہو گا۔ یہ رواں ماہ میں جاری ہو جائے گا جبکہ 44 ارب 59 کروڑ روپے نیپرا یا سی سی آئی کی طرف سے ٹیرف کے تعین کے بعد تین مساوی اقساط میں ادا کئے جائیں گے۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے حکومت پر شدید دباؤ ڈالا تھا جس کے بعد اس تاریخ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مردم اور خانہ شماری اکٹھی کی جائیگی۔ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے جاری مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ مردم شماری دو مرحلوں میں مکمل کی جائیگی۔ پاکستان میں آخری مردم شماری 1998ء میں ہوئی تھی۔ 2008ء میں ہونا تھی جس میں 9 سال کی تاخیر ہوگئی۔ ملک میں مردم شماری کے عمل پر تاخیر کی وجہ سے بلوچستان میں پشتونوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ حکومت کا کہنا تھا کہ چونکہ فوج کئی محاذوں پر سرگرم تھی اس لیے وہ مردم شماری کے عمل کے تحفظ کیلئے فوج فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ حکومت پر مردم شماری کے انعقاد میں طویل تاخیر پر نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی تنقید ہوئی تھی۔ اقوام متحدہ کی نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق کمیٹی نے گذشتہ دنوں پاکستان میں مردم شماری میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسکی وجہ سے ملک کی آبادی کی نسل کی بنیاد پر تازہ ترین تفصیل حاصل نہیں ہو سکی۔ جنیوا میں حکومت پاکستان کی جانب سے ملک میں نسلی امتیاز کے خاتمے کیلئے کوششوں کی رپورٹ کے جائزہ کے بعد رپورٹ میں کمیٹی نے پاکستان میں جلد از جلد اہم مردم شماری کا بندوبست کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مردم شماری کا سارا عمل صوبائی حکومتوں، پاکستان کے ادارہ شماریات کے سیکرٹری اور چاروں چیف سیکرٹریز کے ساتھ قریبی رابطے کے ساتھ مکمل کیا جائیگا۔ اس حوالے سے عملدرآمد کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کی جائینگی۔ مردم شماری کا عمل مکمل کرنے کیلئے فوج کی معاونت حاصل کی جائیگی۔ دی نیشن کے مطابق سول انتظامیہ سے 0.2ملین لوگ لئے جائینگے۔ ملک بھر کو 1661,819 بلاکس میں تقسیم کیا جائیگا۔ دریں اثناء وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شماریات ڈویژن اور ادارہ شماریا ت کو ہدایت کی ہے کہ وہ مردم شماری و خانہ شماری کو مقرر کئے گئے وقت پر یقینی بنانے اور اسکی تیاری کیلئے تما م ضروری اقدامات کریں، مردم شماری و خانہ شماری کو شفاف اور معتبر بنانے کیلئے ہر ممکن کو شش کی جائے، مردم شماری کے ذریعے اکٹھا کیا گیا قابل اعتماد ڈیٹا اہم منصوبہ بندی، پالیسی سازی اور عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی کیلئے اہم کردار ادا کریگا۔ وزیراعظم ہائوس کی طرف سے جاری بیان کے مطابق مشترکہ مفادات کونسل نے نیشنل سیکورٹی فنڈ کے قیام پر بھی غور کیا اور یہ معاملہ نیشنل فنانس کمیشن کے حوالے کر دیا جو فیصلے کیلئے مجاز فورم ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل نے حکومت پنجاب کو خالص ہائیڈل منافع کی ادائیگی کی توثیق کی۔ اجلاس میں وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانیز پیر سید صدر الدین شاہ راشدی، وفاقی وزیر سیفران لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے شرکت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک، وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ خان زہری نے بھی شرکت کی۔