نیشنل ایکشن پلان‘ عملدرآمد میں ناکامی پر نثار استعفیٰ دیں‘ قومی اسمبلی‘ سینٹ میں اپوزیشن کا مطالبہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ خبرنگار خصوصی+ وقائع نگار+ اے پی پی) قومی اسمبلی اور سینٹ میں گزشتہ روز اپوزیشن کی طرف سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکامی پر وزیر داخلہ چودھری نثار کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور اعتزاز احسن نے مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی وزیر داخلہ کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ کئی بار کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا۔ اس معاملے میں وزیر داخلہ تذبذب کا شکار ہیں۔ سانحہ کوئٹہ پر کمشن رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ وزیر داخلہ غلط بیانی کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اعتزاز کا کہنا تھا کہ چودھری نثار بالکل ناکام وزیر داخلہ ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ کی کوئٹہ سانحہ سے متعلق رپورٹ وزارت داخلہ کے خلاف مکمل چارج شیٹ ہے اور اس کی نااہلی کو ثابت کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے تحریک التوا جمع کرا دی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت اس کا جواب دے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے قومی اسمبلی میں ’’گو نثار گو‘‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔ پیپلزپارٹی کے اعجاز خان جاکھرانی نے کہاکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ میں وزیر داخلہ کو ناکام وزیر داخلہ قرار دیا گیا ہے۔ حکومت فوری وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے استعفیٰ لے۔ ادھر پیپلز پارٹی کے سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے سانحہ کوئٹہ کی انکوائری رپورٹ پر عملدرآمد کی قرار داد سینٹ میں پیش کردی۔ انہوں سانحہ کوئٹہ کی انکوائری رپورٹ پر بحث کرے۔ حکومت انکوائری رپورٹ کی روشنی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرے۔ وزیر داخلہ اپنی ذمہ داری نبھانے سے قاصر رہے۔ چودھری نثار سے استعفیٰ لیا جائے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں سانحہ اے پی ایس اور سقوط مشرقی پاکستان پر بحث کے دوران اپوزیشن کا ڈپٹی سپیکر کی جانب سے حکومتی ارکان کو خطاب کے لئے فلور دینے پر ایوان سے پہلے واک آؤٹ پھر کورم کی نشاندہی کی کوشش، ڈپٹی سپیکر نے حکومت کو کورم ٹوٹنے کی خفت سے بچانے کیلئے اجلاس پیر کی شام تک ملتوی کر دیا۔ ڈپٹی سپیکر نے مراد سعید کو خطاب مختصر کرنے کی ہدایت کی تاکہ جمعہ کی نماز سے قبل زیادہ سے زیادہ ارکان بات کر سکیں تو مراد سعید نے بات کو طول دینا شروع کر دیا جس پر ڈپٹی سپیکر نے ان کا مائیک بند کر دیا اور دانیال عزیز کو فلور دیا تاہم اس موقع پر پی ٹی آئی کے 11 ارکان شیریں مزاری، علی محمد، منزہ حسن و دیگر اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے۔ اس موقع پر پی پی پی کے نوید قمر اپنی نشست پر کھڑے ہوئے تو ڈپٹی سپیکر نے فلور ان کے حوالے کر دیا۔ نوید قمر نے کہا کہ میں پی ٹی آئی کے ارکان سے گزارش کرتا ہوں کہ مختصر بات کریں اور ڈپٹی سپیکر سے بھی کہوں گا کہ اپوزیشن کے ارکان کو بولنے کا موقع دیں۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ یہ طے ہوا ہے کہ بحث کے دوران ایک اپوزیشن رکن اور ایک حکومتی رکن باری باری خطاب کرے گا تاہم انہوں نے دانیال عزیز کی بجائے محمود خان اچکزئی کو فلور دیا جس پر پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے ارکان نے واک آؤٹ کر دیا۔ واک آؤٹ کے بعد پی ٹی آئی کے غلام سرور اور انجینئر حامد الحق ایوان میں واپس آئے اور کورم کی نشاندہی کیلئے فلور مانگا تو ڈپٹی سپیکر نے اجلاس پیر کی شام تک ملتوی کر دیا۔ علاوہ ازیں قومی اسمبلی کے اجلاس میں یوم سقوط ڈھاکہ پر بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ یوم سقوط ڈھاکا کے حوالے سے ہم نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا‘ انہوں نے کہا کہ 16 دسمبر کو یہ پیغام جانا چاہیے کہ پوری قوم متحد ہے اور آئین کی سربلندی کے لئے کام کریں گے اور ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ جمہوریت کے استحکام کے لئے مل کر کام کریں گے۔ علاوہ ازیں چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ حکومت 7 جنوری 2017ء سے قبل سینٹ سے منظور کردہ دو بل قومی اسمبلی سے بھی منظور کرا لے کیونکہ اکیسویں آئینی ترمیم میں کی جانے والی بعض ترامیم اس تاریخ کو ختم ہو جائیں گی۔ 7 جنوری 2017ء کو وہ سن سیٹ کلاز عمل میں آئے گی اور وہ دفعات ختم ہو جائیں گی۔ ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ سیاسی بنیادوں پر کسی رہنما کے خلاف انتقامی کارروائی نہیں ہونی چاہئے‘ اگر ہم سیاستدانوں اور سیاسی رہنمائوں کے انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتے تو عوام کے حقوق کا تحفظ کیسے کر سکتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عاصم حسین دہشتگرد نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ شریک ملزم ہیں ان کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ آج 16 دسمبر ہے اور ہمارے دل دکھی ہیں‘ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری سے حکومتی مقاصد پورے ہوئے نہ دہشتگردی ختم ہوئی ہے۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ آج ہمارے دل دکھی ہیں‘ مزید دکھ یہ ہے کہ جنہوں نے اس وقت پاکستان کے لئے قربانی دی آج وہ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ ہمیں اپنے رویے پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ اپوزیشن نے سیاسی قیدیوں کے ضمن میں ڈاکٹر عاصم کا نام لیا‘ ایان علی کا نام بھی آنا چاہئے تھا۔ بیرسٹر سیف نے کہا کہ قانون کا غلط استعمال جو بھی کرے وہ دہشتگرد ہے ہر کسی نے قوانین کو اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی یہ کامیابی ہے کہ دہشت گردی کا زور کم ہو چکا ہے‘ ڈاکٹر عاصم‘ وسیم اختر‘ علی نواز رند سمیت جن کا ایوان میں تذکرہ کیا گیا ان کا سندھ سے تعلق ہے اور لاء اینڈ آرڈر صوبوں کا معاملہ ہے‘ وفاق کی اس میں کوئی مداخلت نہیں‘ رینجرز کو صوبوں کی درخواست پر تعینات کیا جاتا ہے‘ سیاسی مفاد کی خاطر سیاسی قیدی بنانے کی حکومت مذمت کرتی ہے‘ سیاسی مصلحتوں کو آڑے نہیں آنے دینا چاہئے‘ اداروں کو اپنا کام کرنے دینا چاہئے‘ اس وقت ملک میں کوئی سیاسی قیدی موجود نہیں ہے۔ سینٹ میں سیاسی قیدیوں پر بحث ایان علی اور ڈاکٹر عاصم تک محدود ہوکر رہ گئی‘ رحمان ملک نے کہاکہ احتساب اور سیاسی انتقامی کارروائی میں فرق ہونا چاہئے‘ ڈاکٹر عاصم کو 90 دن رینجرز‘ 90 دن نیب کی قید میں رکھا‘ نہال ہاشمی بولے ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر شرمندہ نہیں اگر ایان علی جیسی عظیم سیاسی قیدی کو پکڑا تو معافی مانگتا ہوں۔ بحث کے دوران پی پی اور مسلم لیگ ن کے اراکین آمنے سامنے آ گئے۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ سیاسی قیدی وہ نہیں جو معاہدہ کرکے ملک سے فرار ہو جائے‘ اس پر نہال ہاشمی نے کہا کہ ڈاکٹر عاصم سیاسی لبادہ اوڑھے کھڑے ہیں انہیں پکڑنے پر شرمندہ نہیں۔ جواب میں سینیٹر اعتزاز احسن نے کہاکہ سیاسی قیدی وہ نہیں جو معاہدہ کرکے ملک سے فرار ہو جائے۔ بی بی نے 5 سال قید کاٹی‘ سعودی عرب بھیجنے کا نہیں کہا۔ صدر مملکت ممنون حسین نے سینٹ کا اجلاس 19 دسمبر بروز پیر سہ پہر 2 بجے پارلیمنٹ ہائوس میں طلب کر لیا۔ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ جمعہ کو ہی اپوزیشن کی جانب سے ریکوزیشن پر طلب کیا گیا‘ سینٹ کا اجلاس ایجنڈے کی تکمیل پر چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دیا تھا۔