دانیال عزیزکومائیک دینے پر تحریک انصاف کا ہنگامہ حکومت ارکان کے بھی جوابی نعرے
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نیوز ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں پانامہ لیکس پر ارکان کے اظہار خیال کے دوران ایوان میں نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی ہوئی۔ ہنگامہ آرائی کا آغاز اس وقت ہوا جب سپیکر قومی اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کے رکن دانیال عزیز کو شیخ رشید احمد اور شاہ محمود قریشی کے خطاب کے بعد نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت دی۔ اس پر شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور کچھ ارکان قومی اسمبلی کی نشستوں کی پہلی صف کے پاس کھڑے ہو گئے اور بولنا شروع کر دیا کہ نوازشریف کب جواب دیں گے۔ اس دوران حکومتی بنچز کی طرف سے عمران خان کے حوالے سے بات کی گئی جس پر ایوان میں نعرے بازی شروع ہو گئی۔ سپیکر کی جانب سے دانیال عزیز کو مائیک دینے پر تحریک انصاف کے ارکان نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور ایوان میں نو نو کے نعرے لگائے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال عزیز نے وزیراعظم میاں نوازشریف کی صفائی میں تقریر کی۔ اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا حکومت کی جانب سے کوئی ذمہ دار یقین دہانی کرائے وزیراعظم یہاں کب وضاحت دیں گے جس پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا میں بھی یہاں روزانہ آتا ہوں اور عمران خان کا انتظار کرتا ہوں، کہاں ہیں وہ پردہ نشین انکو بھی تو سامنے لائیں۔ اجلاس کے دوران ایک بار پھر شور شرابہ ہوتا رہا اور حکومتی و تحریک انصاف کے ارکان ایک دوسرے کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔ سپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس سوا دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس میں تاخیر کے باعث مسلم لیگ (ن) کی رکن قومی اسمبلی مریم اورنگزیب نے وقفہ سوالات معطل کرنے کی تحریک پیش کی، جسے قبول کرکے وقفہ سوالات کو معطل کردیا گیا۔ قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا پانامہ سکینڈل صرف ہمارا نہیں پورے پاکستان کا معاملہ ہے، ہم پانامہ کا مقدمہ پارلیمنٹ میں لے کر آئے ہیں اور اس پر اپنا موقف سپریم کورٹ میں بھی پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا قطری شہزادے کے خط کا تذکرہ وزیراعظم کی تقریر میں نہیں تھا، عوام اور سپریم کورٹ قطری شہزادے کے خط کو سمجھنا چاہتے ہیں، وزیر اعظم اسمبلی میں آکر اپنی تقریر کی وضاحت کریں جبکہ ہم ایوان میں ان کی وضاحت تک مطمئن نہیں ہوں گے۔ ’یہ وزیر اعظم کی ساکھ کا سوال ہے جب تک وہ وضاحت نہیں کرتے ہم تکرار اور مطالبہ کرتے رہیں گے، جبکہ میں چیئرمین عمران خان کی طرف سے مطالبہ کرتا ہوں وزیراعظم آئیں اور سچ بتائیں۔‘ شاہ محمود قریشی کی بات مکمل ہونے پر ایاز صادق نے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز کو بات کرنے کی اجازت دی، جس پر تحریک انصاف کے ارکان نے ہنگامہ شروع کردیا۔ دونوں اطراف سے ’گو نواز گو‘ اور ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے گئے۔ تحریک انصاف نے نوازشریف جواب دو کے نعرے بھی لگائے۔ سپیکر نے شاہ محمود قریشی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’آپ چاہتے ہیں میں اجلاس ملتوی کروں۔‘ ’فیصلہ ہوا تھا اپوزیشن کے بعد حکومت جواب دے گی جبکہ دانیال عزیز کے بعد قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بھی بات کرنی ہے۔ تحریک انصاف کے ارکان ’جواب دو جواب‘ اور ’گلی گلی میں شور ہے، نواز شریف چور ہے‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ سپیکر نے شاہ محمود قریشی کو پھر مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ لوگ فیصلہ کرکے مکر گئے، شاہ محمود قریشی نے کہا ’ہم ایوان کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتے، بس چاہتے ہیں وزیراعظم کے اجلاس میں آنے کی گارنٹی ملے۔‘ آئی این پی کے مطابق مسلم لیگ ق کے ارکان بھی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور گلی گلی میں شور ہے‘ عمران خان چور ہے کے نعرے لگانے شروع کر دئیے۔ دوطرفہ شورشرابے‘ ہنگامہ آرائی‘ نعرے بازی سے ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا۔ این این آئی کے مطابق تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی نے کہا جب تک وزیراعظم نواز شریف پانامہ لیکس کے معاملے پر خود ایوان میں آ کر جواب نہیں دیتے احتجاج جاری رہے گا۔ دانیال عزیز نے کہا میری بات سنیں گے تو پتہ چلے گا ہم سچ کہہ رہے ہیں یا آپ جھوٹ بولتے ہیں ۔ شیریں مزاری نے کہا یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں سچ بولنا سیکھیں جس پر دانیال عزیز نے کہا آپ اپنی عمر دیکھیں اور حرکتیں، کچھ تو خیال کریں۔ سپیکر نے شیریں مزاری کے مسلسل بولنے پر کہا شیریں صاحبہ اب بس کر دیں اور خاموش ہو جائیں ۔ دانیال عزیز نے کہا آپ وزیراعظم کو بلانے کی بات کر رہے ہیں بتائیں عمران خان کب آئیں گے۔ پانامہ پیپرز کے حوالے سے منی ٹریل عدالت میں اور ایوان میں پیش کیا اس میں کوئی تضاد نہیں پانامہ پیپرز ملک کے خلاف سازش تھی عمران کو بتا دیں پاکستان پر وار کیا جا رہا ہے اور تم ڈگڈگی بجا رہے ہو۔ صباح نیوز کے مطابق دانیال عزیز نے کہا کہ عمران خان کی تنخواہ بند کر دیں یہ پارلیمنٹ میں آ جائیں گے۔ انہوں نے کہا پترو عمران خان کو تو ایوان میں لے کر آئوں کھوتی ہرویلے بوہڑ تھلے آ کے کھلو جاندی ہے۔ ان ریمارکس پر شاہ محمود نے وزیراعظم کو فراری اور فراڈی قرار دے دیا۔ سپیکر نے ڈگڈگی کے الفاظ حذف کرا دئیے۔ تحریک انصاف کے لعل چند نے مداخلت کی کوشش کی تو سپیکر نے لعل چند سے کہا آپ مسلسل مداخلت کر رہے ہیں جائیں پانی پی کر آئیں دانیال عزیز نے کہا 3 اپریل کو پانامہ لیکس کا معاملہ سامنے آیا اور اپوزیشن نے وزیراعظم کو ایوان میں آ کر وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا تو وزیراعظم اس ایوان میں آئے ۔ شاہ محمود قریشی نے کہا ہم حکومتی بنچز کی بات سننا چاہتے ہیں حکومت کی جانب سے کوئی ذمہ دار یقین دہانی کرا دے وزیراعظم یہاں کب وضاحت دینگے ۔ ماحول کو بگاڑنا عوام کے مفاد میں نہیں ہم ماحول کو خراب نہیں کرنا چاہتے ۔ میں عمران خان کا وزیراعظم کو پیغام دیتا ہوں وہ ایوان میں آ کر عوام کے سوالوں کا جواب دیں جب تک جواب نہیں ملتا ہم عدالت اور عوام میں اس کا تذکرہ کرتے رہیں گے۔ سپیکر نے شیریں مزاری سے کہا اب آپ بڑی ہو گئی ہیں کتاب آپ کے سامنے ہے رول پڑھ لیں۔ شاہ محمود قریشی نے کہا میں مختصر بات کروں گا مجھے وزارت نہیں چاہئے اگر کوئی فرار ہے یا فراری ہے تو وہ وزیراعظم نوازشریف ہیں۔ عمران خان نے کہا ہے جب وزیراعظم ایوان میں آئیں گے میں بھی آئوں گا۔ حکومت کمشن کی رپورٹ کو مانتی ہی نہیں۔ وزیر داخلہ کا بیان عدالت پر حملہ ہے۔ دانیال عزیز وعدہ کریں میں کل وزیراعظم کو ایوان میں لائیں گے۔ سپیکر نے مائیک اپوزیشن لیڈر کے حوالے کر دیا جس پر تحریک انصاف کے ارکان نے پھر شور مچانا شروع کر دیا جس پر پی پی ارکان نے کہا لیڈر آف اپوزیشن خطاب کرنے کھڑے ہیں آپ کو خیال کرنا چاہئے۔ سپیکر نے کہا شاہ محمود قریشی بات کر چکے ہیں۔ مراد سعید کو مائیک نہیں دے سکتا جس پر پی ٹی آئی نے پھر ہنگامہ شروع کر دیا۔ خورشید شاہ نے خطاب میں کہا ہم نے ہمیشہ پارلیمنٹ کو اہمیت دی اور اس کو عزت بخشی۔ آج ایوان میں شور شرابہ کیوں ہے؟ ہمارا وزیراعظم ہر روز اپنی نشست پر آکر بیٹھتا اور سب کچھ سنتا تھا۔ آئی سی آئی جے رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے تو برطانوی وزیراعظم نے پارلیمنٹ کو وضاحتیں کیوں دیں؟ کیوں آئس لینڈ کے وزیراعظم نے استعفیٰ دیا؟ یہ جھوٹ تھا تو پھر وزیراعظم کو اس پر بات کرنے کی کیا ضرورت تھی اس معاملے کو خود مسلم لیگ (ن) نے حقیقت بنایا ہے۔ عوام سب سے بڑی عدالت ہے اس معاملے پر اب وہی فیصلہ کریں گے۔انہوں نے کہا وزیر اعظم کوئٹہ سانحہ پر سپریم کورٹ کمشن کی رپورٹ پرغور کریں یہ ان کی ذمہ داری ہے۔ ملکی ادارے کمزور نہ کئے جائیں۔ اس سے ریاست کمزور ہو گی ، وزیر داخلہ نے کوئٹہ کمشن کو لتاڑا، اچھا ہوا ججوں کو بھی پتہ چلا کہ یہ پیپلز پارٹی نہیں جس کے وزیر اعظم کو پھانسی پرلٹکا دیا جائے یہ مسلم لیگ (ن) ہے ، اب مسلم لیگ (ن) میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھوتھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ پیپلزپارٹی کے ارکان سانحہ کوئٹہ پر سپریم کورٹ کمشن کی رپورٹ پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے خطاب کے بعد وزیرداخلہ کا خطاب سننے کی بجائے ایوان سے راہ فرار اختیار کر گئے، وزیرداخلہ بات کرنے اٹھے تو پی پی پی کے ارکان نے کورم کورم کے نعرے لگانے شروع کر دئیے ، وزیر داخلہ نے کہا ایوان میں تعلیم بالغان کی ایک کلاس لی جائے جس میں انہیں پارلیمان کے طریقہ کار پر تعلیم دی جائے، اپوزیشن بات ضرور کرے مگر جواب سننے کے لئے اخلاقی جرأت بھی پیدا کرے۔ سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے مہمانوں کی گیلری میں بیٹھ کر اجلاس کی کارروائی دیکھی‘ ایجنڈا پر پھر کارروائی نہ ہو سکی۔ قبل ازیں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہمیں تو پتہ نہیں تھا آف شور کمپنی کیا ہوتی ہے؟ خورشید شاہ بروقت کہتے ہیں، پارلیمنٹ میں آئو ان کا بھی 27 دسمبر کو پتہ لگ جائیگا۔
قومی اسمبلی/ ہنگامہ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی لیڈرز کا اجلاس ہوا۔ محمود قریشی نے شکوہ کیا کہ ایوان میں اہم امور پر بات کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ اجلاس میں قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ حکومت کی طرف سے اجلاس میں زاہد حامد، انوشہ رحمان اور سعد رفیق نے شرکت کی۔ سپیکر نے کہا کہ ایوان کو رولز کے مطابق چلاتا ہوں۔ سپیکر سے ملاقات میں ایوان کا ماحول سازگار رکھنے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اپوزیشن نے پانامہ لیکس اور کوئٹہ انکوائری کمشن رپورٹ پر بحث کرانے پر اصرار کیا۔ سپیکر نے تمام پارلیمانی جماعتوں سے ایوان کا ماحول خوشگوار رکھنے کی درخواست کی۔ پانامہ لیکس اور سانحہ کوئٹہ انکوائری کمشن رپورٹ پر بحث کے طریقہ کار پر مشاورت کی۔ حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ اپوزیشن ماحول بہتر رکھے گی تو مثبت جواب دیا جائیگا۔ خورشید شاہ اور اعتزاز احسن سے شاہ محمود قریشی نے ملاقات کی۔ اس دوران خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک استحقاق اور سانحہ کوئٹہ انکوائری رپورٹ پر مشترکہ مؤقف اپنایا جائے گا۔ پارلیمنٹ میں حکومت کیخلاف مشترکہ مؤقف اپنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ملاقات میں سانحہ کوئٹہ رپورٹ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق خورشید شاہ نے کہا اپوزیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کمشن رپورٹ پر میں بات کروں گا۔