راحیل شریف نے غداری کیس میں مدد کی‘ مجھے بیرون ملک آنے کی اجازت ملی: مشرف
لندن (صباح نیوز) سابق صدر پرویز مشرف نے انکشاف کیا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے ان کیخلاف خلاف قائم مقدمات ختم کرانے میں مدد کی تھی، غداری کیس میں میری مدد کی راحیل شریف نے حکومت سے کہا تھا کہ ججز پر دبائو نہ ڈالیں، سابق آرمی چیف کی مداخلت پر حکومت نے دبائو ڈالنا چھوڑ دیا اور مجھے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی۔ ایک نجی ٹی وی سے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ عدلیہ پر حکومتی دبائو ختم کرانے میں جنرل راحیل شریف نے کردار ادا کیاحکومت عدلیہ پر دبائو ڈال رہی تھی۔ میں جنرل راحیل کے پاس رہتا ہوں، انہوں نے میرا ساتھ دیا۔ بدقسمتی سے عدلیہ پر حکومتی دبائو ہوتا ہے حکومت عدلیہ کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے نئے چیف جسٹس اپنی دیانتداری‘ ایمانداری اورانصاف پسندی میں مشہور ہیں، مجھے ان سے قوی امید ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کریں گے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ایماندار اور اچھے کردار والا آدمی کسی کا چمچہ نہیں بنتا اسے خواہ کوئی مقرر کرے۔ وہ بہرحال اپنے کردار کو برقرار رکھتا ہے اسلئے مجھے نئے چیف جسٹس پر مکمل بھروسہ ہے۔ گورننس صحیح نہ ہونے سے تنازعہ پیدا ہوتا ہے۔ وزیراعظم سے آرمی چیف کا تنائو پیدا ہوتا ہے ہر ادارے کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں جو اسے ادا کرنا ہوتی ہیں نواز شریف سے میری کشیدگی دو میجر جنرلز کو ہٹانے کے لیے دبائو ڈالنے سے پیدا ہوتی تھی۔ میں نے کہا تھا کہ آپ وجوہات مجھے لکھ کر دیں میں انکوائری کروائوں گا اگر سچ ثابت ہوا تو انہیں ہٹا دیا جائے گا بلاوجہ کسی کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔ قوم ہمیشہ آرمی چیف کے ساتھ ہوتی ہے ملکی صورتحال ٹھیک کرنے کے لیے لوگ آرمی چیف سے رابطہ کرتے ہیں یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز شریف کے درمیان جاری ہونیو الے مشترکہ بیان میں کشمیر کا ذکر نہیں تھا میں نے ہمیشہ کشمیر پر بات کی اور مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا۔ موجودہ حکومت ترقیاتی منصوبوں پر جھوٹ بول رہی ہے یہ بالکل درست ہے کہ شریف خاندان نے منی لانڈرنگ کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف ہمیشہ آرمی چیف کو ڈومینیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس وجہ سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں، عوام ہمیشہ آرمی چیف کے ساتھ ہوتی ہے، ملک میں گورننس بہت بری چل رہی ہوتی ہے جس وجہ سے سول وعسکری تنازعہ پیدا ہوتے ہیں، نوازشریف مجھ سے دو میجر جنرلز کو نکلوانا چاہتے تھے مگر میں نے انکار کر دیا تو وہ ناراض ہو گئے وہ نجم سیٹھی کا کورٹ مارشل کروانا چاہتے تھے میں نے اس پر انکار کر دیا۔ ہر ادارے کی اپنی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور سب کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے ، گورننس صحیح نہ ہونے سے سول وعسکری تنازعہ پیدا ہوتا ہے ، قوم ہمیشہ آرمی چیف کے ساتھ ہوتی ہے اس لئے ملکی صورتحال ٹھیک کرنے کے لئے لوگ آرمی چیف سے رابطہ کرتے ہیں۔ حالات ٹھیک کرنے کے لئے نوازشریف نے مجھے اور میری اہلیہ کو عمرے کی دعوت پر بلایا جسے میں نے قبول کیا۔ اس طرح کارگل کی ٹینشن ختم ہوگئی تھی اور حالات معمول پر آگئے تھے۔ جب مجھے نوازشریف نے آرمی چیف بنایا تو میں انکا بہت ممنون محسوس کررہا تھا مگر مسائل بعد میں ایسے پیدا ہوئے جس وجہ سے حالات خراب ہوئے۔ پیپلزپارٹی دور میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور مجھے درخواست کی کہ کشمیر اور افغانستان پر انہیں پالیسی بریفنگ دوں۔ واجپائی کے 1999کے دورہ لاہور کے دوران جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا‘ مسلم لیگ (ن) والے آئے روز ٹی وی پر جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں۔ شریف فیملی کے کیسز دیکھنا میراکام نہیں تھا میں تو گورننس میں مصروف تھا، ایسے تمام معاملات کو نیب دیکھ رہی تھی، میں انتقام پر یقین نہیں رکھتا۔ میں راحیل شریف کا باس رہا ہوں اور آرمی چیف تھا اس لئے انہوں نے مجھے ملک سے باہر جانے میں مدد دی ، مجھ پر کیسز سیاسی تھے اور مجھے ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا ، کورٹ خفیہ طور پر دباؤ میں کام کر رہی تھی پھر آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے حکومت سے ڈیل کی تو عدالت نے میرے باہر جانے کی ججمنٹ دی ، عدالتوں پر حکومتی پریشر جنرل راحیل نے ختم کروایا اور غداری کیس میںمیری مدد کی۔ چوہدری نثار کے بھائی جنرل افتخار میرے بڑے اچھے دوست تھے وہ میرے سینئر تھے اس لئے چوہدری نثار نے مجھے آرمی چیف بنوانے میں مدد کی۔ پانامہ لیکس میں قطری شہزادے کے خط کا کوئی سر پیر نہیں ہے۔