• news
  • image

سی پیک کا دفاع، چین کی طرف سے

سی پیک کے دفاع میں چین بھی میدان میں آ گیا ہے۔ چین کے قائم مقام سفیر نے ان تمام اعتراضات اور شکوک و شبہات کو مسترد کر دیا ہے جو پاکستان میں زبان زد عام ہیں۔

عام طور پر چینی سفارتکار خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں مگر یہ تعجب کی بات ہے کہ قائم مقام چینی سفیر نے ایک کھلی تقریب میں ایک ایک اعتراض کا ذکر کیا اور ہر اعتراض کو دلائل کی بنیاد پر مسترد کیا۔
اعتراضات کیا ہیں، خود چینی سفیر کہتے ہیں کہ سی پیک کو پاک پنجاب منصوبہ کہا جاتا ہے، حالانکہ اسے ہر ممکن طور پر متوازن بنانے کی کوشش کی گئی ہے اور اگر موازنہ ضروری ہو تو یہ میں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں بلوچستان کا زیادہ فائدہ ہے۔ اس لحاظ سے اسے چین بلوچستان منصوبہ کہا جانا چاہئے۔ دوسرا اعتراض بھی چینی سفارتکار ہی کی زبانی سنئے کہ سی پیک میں کرپشن کی جارہی ہے۔ موصوف نے جواب دیا کہ یہ کلی طور پر سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے، اسلئے اس میںکرپشن کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا، دوسرے تمام معاملات کھلے عام طے کئے جا رہے ہیں اور کوئی ٹینڈر خفیہ طور پر جاری نہیں کیا گیا۔ نہ کسی لین دین کا منصوبے میںکوئی عمل دخل ہے۔
اگلا اعتراض۔ یہ ہر منصو بے پر کیا جاتا ہے اور فیشن ہی بن گیا ہے کہ اس منصوبے سے ماحولیات کا نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ ایک زمانے میں جی ٹی روڈ کو وزیر اعلی پنجاب غلام حیدر وائیں وسیع کر رہے تھے تو یار لوگوںنے اعتراض کیا کہ برسوں پرانے درختوں کو بے رحمی سے کاٹ دیا گیا ہے۔ یہ سڑک فراخ تو ہو گئی مگر آج تیس سال بعد ضرورت کے مقابلے میں پھر تنگ پڑ گئی ہے۔ اسی طرح لاہور کی نہر کے دورویہ سڑک کو وسیع کیا جانے لگا تو ایک این جی او نے عدالت سے اس بنا پر حکم امتناعی حاصل کر لیا کہ سڑک چوڑی کرنے سے نہر کنارے سر سبز و شاداب درختوں کا قتل عام ہو گا۔ یہ اسٹے کئی برس تک خارج نہ ہو سکا، آج جب یہ سڑک چوڑی بھی کی جا چکی ہے اور اس پر ایک درجن انڈر پاس بھی تعمیر کئے جا چکے ہیں تو پھر بھی اس پر ٹریفک کا اژدہام سفر کرنےوالوں پر وحشت طاری کر دیتا ہے۔ سی پیک میں بعض کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے شامل ہیں جن پر اعتراض ہے کہ ان سے ماحول خراب ہو گا اور مہلک بیماریاں پھیلیں گی۔ اس پر چینی سفارتکار نے یقین دلایا ہے کہ کوئلے کے ہر منصوبے میں اس امر کا بطور خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس سے دھوئیں اور مضر صحت گیسوں کا اخراج نہ ہو۔ مجھے یاد آتا ہے کہ پاکستان میں ماحولیات کے مسائل کا چرچا پہلی بار اسوقت ہوا جب محترمہ بے نظیر نے اپنے شوہر آصف علی زرداری کو ماحولیات کا وزیر بنا دیا، اور پھر مشہور ہو گیا کہ کارخانوں کو نوٹس جاری کئے جاتے ہیں اور پھر یہ نوٹس واپس بھی ہو جاتے ہیں، وہی کارخانے جن پر ماحولیات کو خراب کرنے کا ا لزام عائد کیا جاتا تھا، انہی کو فٹنس سرٹیفیکیٹ بھی جاری کر دیا جاتا تھا، کیسے، اس کی وجہ جاننے کےلئے ذہن پر زور ڈالنے کی ضروت نہیں۔
بہرحال چین سب کچھ کر سکتا ہے، ایک بات طے ہے کہ جھوٹ نہیں بول سکتا، وہ دو نمبری مال کو ایک نمبری کر کے فروخت نہیں کرتا، ہاں، آپ سستا مال بنوانا چاہتے ہیں تو چین ایسا کر سکتا ہے اور آپ کی خواہش پر اور آپ کے صارفین کی قوت خرید کےمطابق سامان تیار کر دیتا ہے۔ چین میںمصنوعات ویسے بھی سستی ہیں کیونکہ ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں چین کے ہاں لیبر سستی اور وافر ہے مگر اب چین کو لیبر کی دستیابی میں مسائل کا سامنا ہے تو وہ سی پیک کے ذریعے اپنی فیکٹریوں کا جال اپنے ملک سے باہر پھیلانا چاہتا ہے، چین کا ارادہ ہے کہ سی پیک کے روٹ پر جگہ جگہ صنعتی زون قائم کئے جائیں گے اور ان میں مقامی افراد کو تربیت دے کر بھرتی کیا جائے گا، ذرا تصور کیجئے کہ جب خنجراب سے لے کر پورے کوہستان، گلگت، خیبر پی کے اور فاٹا میں روز گار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے تو کیا یہ ان علاقوں کی خوشحالی میں اضافے کا سبب نہیں بنیں گے۔ یہ مواقع پنجاب اور، سندھ کو بھی میسر آئیں گے اور بلوچستان میں تو گوادر کی ہماہمی سے ایک ایسا انقلاب آئے گا جس کا ابھی سے پوری طرح تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس انقلاب کا راستہ روکنے کےلئے کئی قوتیں متحرک ہو گئی ہیں، ان میں بعض عناصر ملکی ہیں جو یا تو فیشن کے طور پر اس منصوبے کی مخالفت کرتے ہیں، یا بے سمجھی کی وجہ سے اور زیادہ تر لوگ بھارت کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں، بھارت کو گوادر کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ میں اس کی اصل وجہ بتائے دیتا ہوں، آج بھارت کو سی پیک میں شامل کر لیجئے، ہر طرح کی مخالفت کرنےوالے مینڈک ٹر ٹر بند کر دیں گے، بھارت کا سارا دباﺅ ہی اس بات کےلئے ہے کہ اسے سی پیک کے فوائد کا حصہ دیا جائے، وہ سی پیک کے ذریعے وسط ایشیا کی منڈیوں تک پہنچنا چاہتا ہے، جس طرح روس کی صدیوں سے خواہش ہے کہ وہ گرم پانیوں تک پہنچے اور دنیا سے رابطے کےلئے شارٹ کٹ سے فائدہ اٹھائے، اسی طرح بھارت وسط ایشیا تک رسائی کا خواہاں ہے۔
پاکستان میں ایک بیماری اور بھی ہے کہ فلاں کام کا کریڈیٹ فلاں پارٹی کیوں لے جائے، اب دیکھئے، پیپلز پارٹی برسہا برس سے اقتدار میں رہی ہے، وہ ایسا منصوبہ سوچ بھی نہیں سکی، زرداری صاحب نے چین کے بیسیوں دورے کئے ہوں گے مگر جھولی میں کیا لائے، تب لاتے جب ان کے اپنے ذہن میں کوئی منصوبہ، کوئی خیال، کوئی تصور ہوتا، ادھر مسلم لیگ ن کی دیوانگی کا حال یہ ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے چین کے دوروں پر دورے کئے مگر خالی ہاتھ نہیں آئے اور جھولیاں نہیں منصوبوں کے ٹوکرے بھر کے لائے۔ شہباز شریف کی چینی لوگ ایسے ہی تعریفیں نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں پنجاب اسپیڈ دراصل شہباز اسپیڈ ہے، چینی حکام ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں، وزیر اعظم سے بھی ملے ہیں اور اخبارات نے لکھا ہے کہ انہوں نے فرمائش کر کے مریم نواز سے بھی ملاقات کی۔ یہ لوگ بلاول یا عمران کے پاس کیوں نہیں گئے، فرق صاف ظاہر ہے۔
ایک بات یہاں ضرور کہوں گا، اس کا اظہار چینی سفارتکار نے بھی کیا ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ راز داری برتی جا رہی ہے، اور عوام کو اس منصوبے کی جزئیات تو کجا، تفصیلات تک کا علم نہیں، اگرچہ چینی سفیر نے اس تاثر کو یہ کہہ کر جھٹلایا ہے کہ اگر تفصیلات مخفی رکھی گئی ہیں تو میڈیا میں اعداد و شمار کہاں سے لئے جا رہے ہیں۔ اور ان پر بحث بھی ہو رہی ہے، یہ دعوی کسی حد تک درست ہو سکتا ہے مگر کیا مناسب نہیں کہ ایک تفصیلی رپورٹ، نقشوں اور منصوبوں سمیت شائع کر دی جائے، یہ کام چینی حکومت کر دے، یا ہمارے منصوبہ ساز احسن اقبال کر دیں، اس میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ کوئی دفاعی پراجیکٹ نہیں ہے، ایک تجارتی روٹ کا مسئلہ ہے اور صنعتوں کے فروغ کا منصوبہ ہے، اس کی الف بے ہر ایک کو پتہ ہونی چاہئے۔ اس کے بعد کسی کےلئے اعتراضات اور شکوک و شبہات پھیلانے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہے گی۔
ویسے چینی سفیر کو وضاحتوں کےلئے استعمال نہ ہی کیا جائے، پاکستان میں درجہ بدرجہ اس قدر حکام موجود ہیں جو یہ کام احسن طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن