ایوان بالا میں ’’محفل مشاعرہ‘‘ اعتزاز احسن نے ہیر رانجھا سنا دی
ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن نے ’’ہیر ‘‘ سنادی اور ایک سماں باندھ دیا، سنیٹر اعتراز احسن اور سنیٹر مشاہداللہ خان نے ’’میلہ‘‘ لوٹنے کی کوشش کی جس کے باعث ایوان کا ماحول خاصہ خوشگوار ہو گیا چوہدری اعتراز احسن نے کہاکہ لومڑی کو مرغی کا رکھوالا بنانا کہاں کا انصاف ہے انہوں نے ہیر رانجھا کی پوری داستان ہی ایوان کو سناڈالی جس پر ارکان نے خوب انجوائے کیا حکومت کی جانب سے سنیٹر مشاہد اللہ خان نے انہیں افسانوی اندا ز میں آڑے ہاتھوں لیا انہو ںنے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے ہیررانجھا کا ذکر تو کیا لیکن کیدو کا تذکرہ کرنا بھو ل گئے انہوں نے کہا کہ سندھ کا ایک ڈاکو تھا جس کا نام مدد علی خان تھا جب وہ ڈاکہ ڈالنے آتا تھا تو لوگ’’ گھوڑا ڑے گھوڑا ‘‘کے نعرے لگاتے تھے اب بھی کچھ لوگ سندھ میں آ رہے ہیں اور کچھ آنے والے ہیں اب کوئی آرہا ہے تو سندھ میں ’’گھوڑا ڑے گھوڑا‘‘ کی صدائیں آرہی ہیں اس پر ایک رکن نے کہا کہ مدد علی سندھ کا ڈاکو نہیں تھا۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ میں کیا کہ رہا ہوں مشاہد اللہ نے کہا کہ میری کیا مجال ہے، گھوڑا ڑے گھوڑا۔۔۔سنیٹر جنرل صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ جب فوجی چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن جائیں تو سب ترجمان بننے آجاتے ہیں لیکن فوجی اگر منتخب ایوان یا کسی محکمہ میں چلا جائے تو اعتراض ہوتا ہے لیکن اگر گورنر ہاؤس کو آئی سی یو ڈکلیئر کردیا جائے تو کوئی اعتراض نہیں کرتا۔ مشاہد اللہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں پیپلزپارٹی کو آڑھے ہاتھوں لینے میں مہارت رکھتے ہیں انہوں نے کہا آج محفل مشاعرہ سجی قائد حزب اختلاف ہیر رانجھا کی داستان سنا رہے ہیں میں آج سندھ کے ڈاکوئوں کی بات کر لیتا ہوں۔ چیئرمین سینٹ نے مجلس قائمہ کی ہدایت پر زرعی تحقیقاتی کونسل کی اراضی کو کمرشیل بنانے کا ارادہ ترک نہیں کیا ۔ ایوان بالا میں پانچ ریگولیٹری اتھارٹیز کو وزارتوں کے ماتحت کرنے کے فیصلہ کا دفاع کرنے کے لئے کوئی وزیر تیار نہیں تھا نماز مغرب کے وقفہ کے بعد کوئی وزیر دفاع کرنے واپس نہیں آیا۔ دلچسپ امر یہ ہے بلوچستان سے حکومت کی دو اتحادی جماعتوں نے بھی حکومتی اقدام کی مخالفت کر دی۔ اپوزیشن جماعتوں و حکومتی اتحادیوں نے حال ہی میں پانچ ریگولیٹری اتھارٹیز کو وزارتوں کے ماتحت کرنے کے حکومتی فیصلہ کو مسترد کردیا ہے اپوزیشن نے کہا ہے کہ’’ چنوں اور جو‘‘ کی رکھوالی پر بکروں اور گدھوں کو رکھا جارہا ہے جو سب کچھ خود کھاجائیں گے۔ سنیٹر سحر کامران نے کہا کہ اعتماد اورمالی شفافیت پر سمجھوتہ کیا جا رہا ہے حکومتی اقدامات سے صارفین کے مفادات کو دھچکا بھی لگے گا پاکستان کو شریف انٹرپرائزز بنایا جا رہا ہے سارے اختیارات حکومت اپنے پاس منتقل کر رہی ہے سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی کی گئی ہے حکومتی اقدام قابل مذمت ہے 11-11 ماہ سی سی آئی کے اجلاس نہیں ہوتے حکومت وفاقی اکائیوں کو ساتھ لیکر نہیں چل رہی یہی وجہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کے تحفظات سامنے آرہے ہیں حکومت فیصلہ واپس لے ہم بھی کورٹ میںجاسکتے ہیں سینیٹر فرحت اللہ بار نے کہا کہ حکومت کا اصل مقصد کیا ہے حکومت کی اصل نظر نیپرا پر ہے ایک مخصوص سولر پروڈیوس پاور یونٹ ہے اسکی بجلی کی قیمت کا معاملہ ہے۔پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات پر کمیٹی کی عبوری رپورٹ منظر عام پر آگئی ہے اس رپورٹ کی تیاری میں جہاں پوری کمیٹی مبار باد کی مستحق ہے وہاں اس کی ذیلی کمیٹی کے کنوینر زاہدحامد کو بھی جاتا ہے جنہوں دن رات کام کر کے رپورٹ تیا ر کی انتخابات کیلئے قوانین میں 40سال کے بعد ترامیم کی جارہی ہیں مجوزہ قانون کے تحت پولنگ اسٹیشنز پر نگرانی کیلئے کیمرے لگائے جائیں گے زیادہ تعداد میں اضافی بیلٹ پیپرز نہیں چھاپے جائیں گے نادراجعلی ووٹوں کا فرانزک معائنہ کرسکے گانتخابی اصلاحات کمیٹی کے کل 33ممبر ہیں جن میں 22ایم این ایز اور 11سینیٹرز شامل ہیں ۔ 2002-3کے سینیٹ انتخابات اور اس عرصے کے دوران ہونے والے انتخابات 4قوانین اور 5ایگزیکٹیو آرڈرز کے تحت ہوئے 2012کا سینیٹ کا الیکشن بھی پرانے قوانین اور قواعدوضوابط کے مطابق ہوا اس کے بعد انتخابی اصلاحات کے حوالے ایک نیا قانون بنایا جائے گا انتخابی اصلاحات کمیٹی کا مقصد نیا قانون بنانا ہے اس حوالے سے انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی کے 70اجلاس ہوئے ذیلی کمیٹی کے 11ممبر ہیں زاہدر حامد خان اس کے سربراہ سب کمیٹی 14اکتوبر 2014کو بنائی گئی انئے الیکشن بل کے حوالے سے کچھ تجاویز پر اتفاق ہوا ان تجاویز کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے اور جمعرات کو سینیٹ میں بھی پیش کر دیا جائے گا مزید 30 دن کا وقت دیا گیا ہے سینیٹرز پہلے اپنی تجاویز نہیں دے سکے تواپنی تجاویز30دن کے اندر اندر قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروا سکتے ہیں۔