چینی سفارتکاروں نے سوشل میڈیا پر سی پیک کے دفاع میں کھل کر مہم شروع کر دی
اسلام آباد (بی بی سی) پاکستان میں تعینات چینی سفارت کار عموماً 'خاموش' سفارتکاری پر عمل پیرا رہے ہیں لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر عمل درآمد میں تیزی آنے کے ساتھ ساتھ یہی چینی سفارت کار سوشل میڈیا پر اس کے دفاع کے لیے کافی متحرک ہوئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق اسلام آباد میں تعینات چین کے سفارت کار محمد لجیان ژاو نے ٹوئٹر پر اپنا تعارف میں لکھا کہ 'اگر آپ کو چین یا سی پیک سے متعلق معلومات چاہیے تو مجھے فالو کریں۔' مئی 2010 سے شروع کیے گئے اس چینی اہلکار کے اکاؤنٹ کی ٹائم لائن اگر دیکھیں تو اس پر بھرپور انداز میں راہداری منصوبے سے متعلق ٹویٹس اور شائع ہونے والی خبروں کی تردید یا وضاحت کی گئی ہے۔ تازہ ترین بحث خیبر پی کے کے ضلع دیر پائین میں ایک پن بجلی کے منصوبے پر کام کرنے والے چینی مزدوروں کے بارے میں افواہیں ہیں کہ وہ اس کیمپ کے قیدی ہیں۔ محمد لجیان ژاو نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں۔ ایک سیمینار میں بات کرتے ہوئے چین کے قائم مقام سفیر نے کہا کہ سی پیک پر کام ٹھیک ہو رہا ہے۔ 'لیکن بعض لوگ اسے بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں'۔ محمد لیجیان ایک اور جگہ پر سی پیک میں پنجاب کو سب منصوبے دینے کے الزام کے بارے میں کہتے ہیں کہ 'میرے نزدیک بلوچستان کو اس سے زیادہ فائدہ ہوگا تو کیا اس کا نام چین بلوچستان اقتصادی راہداری نہ رکھ لیا جائے'۔ بلوچستان کے بارے میں ہی ان کا کہنا تھا کہ' صوبے کی اشرافیہ عام لوگوں کو بیوقوف بنانا چاہتی ہے'۔ چینی سفیر کی اہلیہ ڈیانہ باؤ بھی اپنے اکاونٹ سے لیجیان کے ٹویٹس کو ری ٹویٹ کرتی رہتی ہیں۔ 46 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے والے چین کے لیے سوشل میڈیا پر سی پیک کے حق متحرک ہونا شاید بڑی ضرورت تھی۔