حکومتی فیصلوں کی من مانیاں اور عوام کی مشکلات
للہ عارفہ کشمیر کی مشہور شاعرہ ہو گزری ہیں۔ وہ برہنہ رہا کرتی تھیں اور انکی برہنگی میں بے شرمی شامل نہیں تھی کیونکہ وہ عقل و شعور کی اس منزل پر تھیں جہاں زندہ رہنے کے معیارات بدل جاتے ہیں۔ لوگ للہ عارفہ کو کہا کرتے تھے کہ وہ برہنہ ہو کر کیوں رہتی ہیں۔ جواب میں للہ عارفہ مسکرا کر کہا کرتی تھیں کہ بستی میں کوئی مرد ہو تو میں اس سے پردہ کروں۔ بقول مرتضیٰ برلاس …؎
جن کی آنکھیں ہیں انہیں کچھ بھی نظر آتا نہیں
ایسے اندھے شہر میں ہم کس سے پھر پردہ کریں
لیکن ایک دن جب احمد شاہ ہمدانی ابھی جنگل میں داخل ہی ہوئے تھے کہ للہ عارفہ نے تندور میں چھلانگ یہ کہتے ہوئے لگا دی کہ بستی میں مرد داخل ہو گیا ہے۔ موجودہ حکومت جو فیصلے کرتی چلی جاری ہے یا جس انداز کی بھی حکومت کر رہی ہے اس کے فیصلوں میں عقل و شعور کی کوئی بڑی منزل تو ہے نہیں کہ یہ کہا جائے کہ ان کیلئے شرمندگی کا عنصر بھی موجود نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ انکے سامنے اپوزیشن کی شکل میں کوئی ’’مرد‘‘ موجود نہیں ہے جس کی موجودگی میں انہیں کسی جلتے ہوئے تندور میں چھلانگ لگا کر اپنی برہنگی چھپانے کی ضرورت پیش آئے۔ اسی لئے اب حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو کنٹرول کرنیوالی ریگولیٹری اتھارٹیز کو مختلف وزارتوں کے کنٹرول میں دے دیا ہے۔ یعنی کہ وزارتوں کی بھی لاٹری نکل آئی اور ناجائز منافع خوروں کی بھی چاندی ہو گئی اور باقی رہے عوام تو اس کا پرسان حال کوئی بھی نہیں نہ حکومت اور نہ اپوزیشن کیونکہ اپوزیشن عوام کے جذبات کی ترجمانی نہ کرے تو یہ بھی ظلم بے چارے عوام کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ لیکن عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ پی پی پی کی غیر موجودگی میں انہوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ خاص طور پر آج پانامہ لیکس کا معاملہ اگر ملک کے بچے بچے کی نظر میں آ چکا ہے تو یہ تحریک انصاف کے آواز بلند کرنے کی وجہ سے ہے یہ علیحدہ بات کہ سیاست کے میدان کے پیچ و خم سمجھ کر شاطرانہ انداز اختیار کرنا ابھی عمران خان کے بس کی بات نہیں۔ وہ شادی کا اعلان بھی جلسوں میں کر دیتے ہیں۔ لہٰذا اچانک رویے بدلنے کی وجہ سے لوگ انہیں سیاستدان تسلیم کرتے کرتے ان پر تنقید شروع کردیتے ہیں۔ یا بعض اوقات تو وہ خود بھی یوں کرتے ہیں کہ سیاست کے غبارے میں اتنی ہوا بھر دیتے ہیں کہ غبارہ پھٹ جاتا ہے۔ حالانکہ غبارے میں ہوا بھرنے کیلئے بھی ایک آرٹ کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں بھرنے کیلئے کتنا سانس درکار ہو گا ؟ لیکن عمران خان کو ٹھوکریں کھا کر سنبھلنے اور سیاست کرنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی انکے ساتھ یہ ہوا کہ اپوزیشن عمران نے کی مگر اب ’’شورشرابا‘‘ پی پی پی والوں نے سنبھال لیا ہے۔ حالانکہ ملک میں اچھی جمہوریت کیلئے مضبوط اپوزیشن کا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ حکمران موجودہ صورتحال کی طرح من مانی نہ کریں اور اگر صورتحال یہ ہو کہ ملک میں جمہوریت ہو اور حقیقی اپوزیشن کی بجائے فرینڈلی اپوزیشن ہو تو پھر بدقسمتی کے ساتھ عوام کو ’’آمرانہ جمہوریت‘‘ سے واسطہ پڑ جاتا ہے اور یہی صورتحال سامنے آئی ہے جو اس وقت دکھائی دے رہی ہے اور جس کی وجہ سے ملک کے تمام ادارے تباہ حال ہو چکے ہیں۔ ماضی میں بھی اداروں میں بھرتی کئے جانیوالے فیصلوں میں اقربا پروری دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً پی آئی اے میں پیپلز پارٹی کے دور میں بے شمار لوگ بھرتی کئے گئے مگر موجودہ حکومت نے تو اس معاملے میں ریکارڈ توڑ دیا نہ صرف اداروں میں بھرتیاں اندھوں کی ریوڑیاں بانٹنے کی طرح کی گئیں بلکہ ایک اور مسئلہ بھی سامنے آیا کہ ایک من پسند فرد کو ادارے میں لایا گیا تو اسی کی مشاورت سے اسی کے ہم خیال لوگ دیگر اداروں میں تعینات کر دئیے گئے اور یوں سارے مل ملا کر کمال اتفاق سے معاملات کیساتھ کھیل رہے ہیں اور ملک میں اس وقت اداروں کی ترقی کی بجائے افراد ترقی کر رہے ہیں اور یہ سارا عمل انتہائی ریلیکس موڈ میں ہو رہا ہے۔ قائد اعظم نے یہ ایسی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کیلئے حاصل کیا تھا جہاں عوام کو بنیادی سہولیات حاصل ہوں نا کہ امیر طبقہ امیر تر اور غریب تر ہوتا چلا جائے۔ آج کل کے نئے سیاسی منظر نامے میں جناب آصف علی زرداری کی آمد کے ڈنکے بج رہے ہیں اور یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ شاید ساری اپوزیشن یکجا ہو کر اس آمرانہ جمہوریت سے نجات حاصل کر لے گی یا پھر ایسا نہ ہو سکے اور کچھ دنوں میں ہی پھر سے فرینڈلی اپوزیشن کی شکل صورت دکھائی دینے لگے اور بدقسمتی سے ایسا ہوا تو ملک میں جمہوریت کو آمرانہ انداز کی شکل دینے میں کوئی کمی باقی نہیں رہ جائیگی کیونکہ پیپلز پارٹی نے عمران خان کے کئے گئے گرم لوہے پر چوٹ لگانے کی کوششیں تو شروع کی ہیں مگر اب تحریک انصاف کیلئے یہ مشکل صورتحال ہے کہ وہ مشترکہ اپوزیشن میں شامل ہوں گے یا پھر سفر کا راستہ اکیلے ہی کاٹنے کا فیصلہ کرینگے کیونکہ عمران کے بارے میں ابھی سے کہا جا رہا ہے کہ وہ عین وقت پر راستہ بدل لیں گے ‘ لیکن ساری اپوزیشن تن تنہا چلا کر اور حکومت وقت پر تنقید کر کے ایک ماحول بنانے کا کریڈٹ تحریک انصاف کو جاتا ہے۔ حکومت کے تازہ ترین فیصلے اس بات کی گواہی ہیں کہ انہیں آنیوالے الیکشن کے قریب ہونے کے باوجود عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ مسلم لیگ ن اس بات پر Over confident ہیں کہ اگلے پانچ سال کیلئے بھی وہ جیت جائینگے۔ لہذا اب ساری کی ساری ذمہ داری اپوزیشن پارٹیوں پر ہے کہ وہ کیا کرتی ہیں۔ اب اس ملک کو فرینڈلی نہیں حقیقی اپوزیشن کی ضرورت ہے اور اس صورتحال میں پاکستانی عوام پر بھی ذمہ داری بہت زیادہ ہے کہ وہ احمد شاہ ہمدانی جیسے شخص کا انتخاب کریں تاکہ معلوم ہو جائے کہ ملک میں کوئی مرد داخل ہو چکاہے۔