• news
  • image

"پاکستان کیخلاف پہلی دہشت گردیـ"

برلن میں کرسمس مارکیٹ میں ٹریلر لوگوں پر چڑھانے سے 12 افراد ہلاک، 50 زخمی۔ ’’انقرہ "میں امریکی سفارتخانے کے باہر فائرنگ، قبل ازیں اِسی شہر میں روسی سفیر کا قتل پہلے سے جاری شورش ۔ انتہا پسندی کو مزید بڑھاوا دینے کا باعث بن سکتا ہے مگر روس ترکی کے دانشمندانہ رابطوں نے تلخی کی بجائے مُشترکہ تحقیق پر صاد کیا ۔ عالمی سطح پر نئی صف بندی کرتی طاقتور ممالک کی مفاداتی پالیسیاں، ریاستی عزائم اِس قتل کے وہ نتائج نہ دے سکیں جو مقصود تھے۔ ترکی، روس تعلقات زیادہ بگاڑ کی سطح سے اب نارمل لیول پر اُستوار ہو چُکے ہیں۔ روس نے معاملہ سلامتی کونسل میں اُٹھانے کا اعلان کیا تو’’ترکی‘‘ نے ’’ گولن تحریک‘‘ پر ملبہ ڈال دیا۔ دنیا میں ایک بڑا اتحاد وجود میں آرہا ہے ’’روس، چائنا، پاکستان‘‘ ’’غیر مطبوعہ اتحاد‘‘ اب’’مطبوعہ معاہدہ‘‘ کی حیثیت اختیار کرنے کو ہے۔ ہر دو ذِمہ دار ممالک حادثہ کے بین السطور متن تک بخوبی رسائی اور آگاہی رکھتے ہیں اس لئے توقع ہے کہ تنائو سنگین موڑ نہیں لے گا بلکہ خدشہ ہے کہ اِس آڑ میں’’صدر اردگان‘‘ ناراض سیاست کا راستہ مزید صاف کرنے کا موقع ضائع نہیں کرینگے۔ دہشت گردی ایک خِطہ یا قوم کا مسئلہ یا دردِ سر نہیں بلکہ پورے کُرہ ارض کے لیے ٹائم بم بن کر بج رہی ہے ۔’’ رُوسی سفیر‘‘ کے قتل سے زیادہ سنجیدہ معاملہ برلن حادثہ ہے ۔ وزیر داخلہ نے فوراً سے پہلے الزام پاکستانی’’ڈرائیور‘‘ پر لگا دیا جو ازاں بعد واپس لے لیا گیا ۔ دہشتگردی کی جنگ کا یہی سب سے زیادہ قابل افسوس پہلو ہے کہ پاکستان کو عالمی طاقتور بلاک کے علاوہ دنیا کا ایک غالب حصہ بلاوجہ رگیدتا رہتا ہے ۔ ایک 16 ’’ دسمبر‘‘ کچھ دن پہلے گُزر ا۔ ہلاکو۔ چینگیز خان کے سفاکیت ، بربریت کو شرمندہ کرتا ہوا دن ۔ ایک 16دسمبر ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ 45 سال پہلے گزرا تھا ۔ ایک پڑوسی ملک کی مداخلت ۔ براہ راست پُشت پناہی سے لاکھوں لوگ بے گھر ۔ ہزاروں تہ تیغ کر دئیے گئے ۔ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کا دو لخت ہونا کیا ’’دہشت گردی‘‘ نہیں تھی ؟ جنگی ہتھیاروں کی خریداری میں تمام جنوبی ایشیائی ممالک پر سبقت لیے ہوئے بھارت کی طرف سے یہ پاکستان پر اعلانیہ ۔ پہلی ہولناک ’’دہشت گردی‘‘ تھی۔ حالیہ دنوں میں ’’مودی‘‘ دو مرتبہ کھلے عام پاکستان توڑنے کا اعتراف جرم کر چکا ہے کیا اب بھی اِس خِطے میں دہشتگردی کے پہلے موجد، لکھاری کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ؟ تمام تر کشیدگی ۔ سفارتی بداخلاقیوں کے باوجود مشیر خارجہ وزیر اعظم کے پیغام’’ کہ مسائل کا حل صرف مذاکرات‘‘ لیکر دہلی پہنچے ۔ پیغام صحیح تھا مگر’’بندہ‘‘ غلط، چنانچہ مشیر خارجہ کو بھاگنا پڑ گیا ۔’’ویانا کنونشن‘‘ کو انڈین تکبر، رعونت نے راکھ چِٹا دی۔ سی پیک کی تباہی کے لیے ’’افغانستان ، انڈیا، اسرائیل" نے36" ارب" مختص کر دئیے ۔ خبر بے بنیاد ہے تو ابھی تک تردید کیوں سامنے نہیں آئی ؟ کیا یہ تخریب کاری پلان امریکہ کی نظر سے اوجھل ہے؟جب وہ حقانی نیٹ ورک کی یہاں مبینہ موجودگی کا ذکر کرتا ہے۔ پاکستان دنیا کو مطلوب نا پسندیدہ عناصر کے لیے کبھی بھی مقدس جگہ نہیں ہوسکتا پہلے سے موجود سینکڑوں دستاویزی ثبوت کے علاوہ ’’سرکاری بینک‘‘ کی ایک اور تصدیقی رپورٹ ۔ اِس جنگ میں پاکستان کا اب تک 124 کھرب روپے کا نقصان ہو چُکا ہے جبکہ جنگ کے سب سے زیادہ فوائد سمٹینے والوں نے 14 سالوں میں صرف 14 کھرب دئیے ۔ دنیا بھر میں فروخت ہونیوالا 80" فیصد اسلحہ" کِس ملک کا ساختہ ہے ؟ دنیا کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان دوبارہ سے سقوط ڈھاکہ جیسے دوراہے پر کِس کی کرم فرمائیوں سے آ کھڑا ہوا ہے۔ کنٹرول لائن انڈین بارود سے مسلسل دہک رہی ہے اب تو معصوم بچے سکول بسیں بھی محفوظ نہیں رہے خود انڈیا کے سیاسی، عوامی، ادبی حلقوں سے کشمیریوں پر جاری مظالم کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی تھیں کہ تازہ ترین’’بھارتی فوج کے ڈپٹی چیف‘‘ نے مسئلہ کشمیر کا حل روایتی موقف کو ترک کرنے سے ممکن بتا دیا ۔ ’’لیفٹیننٹ جنرل ‘‘ نے ’’وادی ‘‘ میں نوجوان طبقہ کی چلتی کمان کو تسلیم کر کے دائمی امن کے لیے نئے اور منفرد حل کے بارے میں سوچنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسا صرف مذاکرات اور مفاہمت سے ہی ممکن ہے ۔ اب تو ’’بھارتی آرمی چیف‘‘ نے بھی سرحدی کشیدگی کم کرنے کی خواہش کا اظہار کر دیا ہے ۔ مگر افسوس کہ کوئی بھی فورم ملک، ان اشتعال انگیزیوں ۔ سازشوں کا نوٹس لینے یا رُکوانے کے موڈ میں نہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ’’برطانوی وزیر خارجہ ‘‘ نے ’’کشمیر ‘‘ پر ثالثی سے معذرت کی برصغیر کی تقسیم میں فساد کا بیج بونے والے ذمہ داری سے صاف مُنکر ہو گئے ازاں بعد ’’عالمی بینک‘‘ نے انڈین آبی جارحیت پر ثالثی کا عمل یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ دونوں ممالک تنازع خود طے کریں ۔ پاکستان کو ایک بوند پانی دینے اور’’10ٹکڑوں‘‘میں تقسیم کرنے کا اعلان کرنے والوں کو نہ روکنے والے دانستہ دنیا کو ایک خوفناک جنگ میں جھونگ دینے کا باعث بنیں گے ۔ شکر ہے کہ طویل عرصہ سے زبانی کلامی حمایت کے بے کار تراشوں کے بعد بدلتے امریکہ سے خوش آئیند خبر آئی کہ’’صدر ٹرم‘‘ مسئلہ کے حل میں مرکزی کردار ادا کرسکتے ہیں یہ بیان سیکرٹری یا افسرکی سطح سے نہیں بلکہ نو منتخب امریکی ’’نائب صدر مائیک پنس‘‘ کا ہے ۔ اُن کا کہنا تھا کہ بڑھتی کشیدگی کی وجہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ہے ۔ ’’صدر ٹرمپ‘‘ معاملات کے حل کے لیے غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں ۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ناجائز تسلط ، قبضہ گیری، دہشت گردی کی سب سے بھیانک شکل ہے دنیا کے بہت سارے ممالک اور" برادر مسلم ہمسایوں" کی ریشہ دوانیوں، شر پسندی کے شکار ملک کے لیے ’’سی پیک‘‘ کا آغاز اچھی پیش رفت ہے کہ قریبی ہمسائے بھی اب اِس کے فائدہ مند ثمرات جھولی میں ڈالنے کے خواہاں ہیں اس سے بڑھ کر ’’ایرانی سپیکر‘‘ نے دہشت گردی کے خاتمہ اقتصادی اشتراک کے لیے تجویز کیا ہے کہ سعودی عرب، پاکستان، ایران، ترکی، مصر، عراق پر مشتمل ’’مسلم بلاک‘‘ بنایا جائے۔ بلاشبہ مسلم ممالک کی بقا اکٹھے ہونے میں ہے ۔ اِس سے پہلے 34 ’’ رُکنی اتحاد‘‘ وجود میں آچکا ہے ۔ شنید ہے کہ"جنرل راحیل شریف" جلد ہی اِسکی کمان سنبھال لیں گے تمام تر اقدامات۔ انسدادی تدابیر سے زیادہ ضروری وجوہات کا جاننا ہے صرف اسلامی تعلیمات اور مسلم مفکرین، ممالک کو گڑھ قرار دیکر اُن پر چڑھ دوڑنے سے اب تک فساد کے پھیلاؤ میں اضافہ ہی ہوا ہے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن