:امریکیوں نے کہا بوگرا نہیں ہمارا آدمی بھٹو چین جائیگا، پھر وہی گئے: سید مرید حسین
لاہور (خصوصی رپورٹ) سابق صدر جنرل ایوب خان کے قریبی ساتھی اور اس دور میں قومی اسمبلی میں کنونشن لیگ کے ڈپٹی لیڈر سید مرید حسین نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ محمد علی بوگرا صدر ایوب کے وزیر خارجہ تھے۔ چین دورے پر جانے سے قبل انہوں نے قومی اسمبلی میں تقریر کی۔ اس دوران میں امریکی ڈپلومیٹک مشن کے آدمی اسمبلی کی لابی میں آگئے۔ بوگرا کی تقریر سن کر وہ کہنے لگے:”آپ کا خیال ہے کہ یہ شخص اس قسم کی تقریر کرنے کے بعد چین جا سکے گا؟ یہ نہیں ہمارا آدمی بھٹو چین جائے گا“۔ بوگرا نے ڈھاکہ سے چین کے لیے فلائی کرنا تھا۔ بوگرا ڈھاکہ جا رہے تھے کہ جہاز میں انہیں ہارٹ اٹیک ہوا۔ ڈھاکہ میں وہ انتقال کر گئے۔ ان کی جگہ ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بنے اور وہی پھر چین گئے۔ انہوں نے منیر احمد منیر کے ساتھ ایک طویل انٹرویو میں کیا ہے جو ”ان کہی سیاست“ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا ہے۔ سیاسی انکشافات سے بھرپور اس انٹرویو میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جب وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے صدر سکندر مرزا نے استعفیٰ لیا تو وہ رونے لگے۔ نواب مظفر علی قزلباش نے ان سے کہا، آپ تو بڑے مضبوط آدمی مشہور ہیں۔ پرائم منسٹری تو آنی جانی چیز ہے۔ سہروردی نے جواب دیا: ”میں پرائم منسٹری کے لیے نہیں رو رہا۔ میں اس لیے روتا ہوں کہ کشمیر ہمیشہ کے لیے گیا“۔ انٹرویو میں سید مرید حسین نے مزید انکشاف کیا کہ روس کے ساتھ سرحد ملنے کی وجہ سے انگریز حکمرانوں نے مہاراجہ کشمیر سے کہا کہ تم کشمیر ہمیں دے دو اس کے عوض ہم تمہیں شملہ ہلز دے دیتے ہیں۔ مہاراجہ کے انکار پر انگریز حکومت نے احرار سے کشمیر ایجی ٹیشن چلوا دی۔ مہاراجہ نے احراریوں کو پیسے دیے۔ انہوں نے معافیاں مانگنا شروع کر دیں۔ موومنٹ دب گئی۔ مہاراجہ پھر سے قائم ہو گیا۔ احراری گھروں کو لوٹے تو لوگوں کے ملامت کرنے پر انہوں نے پھر تحریک شروع کر دی۔ اب مہاراجہ نرم پڑ گیا اور اس نے ایک معاہدے کے ذریعے گلگت پر انگریز کی حکمرانی تسلیم کر لی۔ یوں انگریز کا مقصد پورا ہو گیا۔ سید مرید حسین کے مطابق صدر ایوب کے دورِ حکومت میں گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ نے کنوینش مسلم لیگی امیدوار خواجہ محمد جمیل کے مقابلے میں خواجہ صفدر کو جتوایا اور مغربی پاکستان اسمبلی میں انہیں بیگم شاہ نواز کے مقابلے میں قائدحزب اختلاف بھی بنوایا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ممتاز دولتانہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو انہوں نے اپنے ایک ورکر عطاءاللہ جہانیاں کو جو سرکاری ملازم بھی تھا مختلف ناموں سے 65 مربعے الاٹ کیے۔ دولتانہ بھٹو سے زیادہ لائق تھے، لیکن اچھائی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ دولتانہ نے یوسف رضا گیلانی کے والد علمدار حسین گیلانی کے ساتھ قرآن پر وعدہ کیا پھر بھی اسے وزیر نہ بنایا۔ فیروز خاں نون وزیراعلیٰ بنے تو انہوں نے علمدار حسین گیلانی کو وزیر لے لیا، بعد میں یہی علمدار حسین گیلانی فیروز خاں نون کے خلاف محاذ آرائی میں دولتانہ کے ساتھ مل گئے۔گورنر مغربی پاکستان نواب کالا باغ نے عبدالغنی گھمن اور عبداللہ روکڑی کو گن پوائنٹ پر انشورنس کمپنی دلائی۔ جس کی تھی اسے کہا، تجھے جیل بھیج دیں گے۔ زبردستی اس سے شیئرز لے لیے۔ ایوب خاں کے بیٹوں کو بدنام کرنے کی مہم امریکی لابی نے شروع کی۔ اس میں کالاباغ براہِ راست ذمہ دار تھا۔ امریکہ نے ایوب خاں کو اقتدار سے اس لیے نکلوایا کہ ملک زرعی اور صنعتی لحاظ سے ترقی کر رہا تھا۔ ملک میں ہونے والی محلاتی سازشوں کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے سید مرید حسین نے یہ بتایا کہ گورنر جنرل غلام محمد بیمار ہوگئے تو مشتاق احمد گورمانی نے اس کی جگہ لینے کے لیے جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ گورمانی کا راستہ روکنے کے لیے سیکرٹری دفاع سکندر مرزا اور کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں نے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کو استعفیٰ لکھ کر دیا کہ گورنر جنرل سے اس پر دستخط کرا لاو¿۔ غلام محمد نے بوگرا کو چھڑیاں ماریں پھر جنرل ایوب خاں خود گئے۔ غلام محمد رونے لگے کہ میرا تو ہاتھ ہی کام نہیں کرتا۔ کمانڈر انچیف جنرل ایوب خاں نے سہارا دے کر استعفے پر زبردستی ان کے دستخط کرائے۔ یوں سکندر مرزا گورنر جنرل بنے۔ اس کے بعد ایوب خاں اقتدار میں آئے۔ ایوب خاں فوجی تھے لیکن انہوں نے اس نظام میں زندگی بھی رکھی تھی۔ میں ان کے فیصلے بدلوا دیا کرتا تھا۔ اکبر بگٹی کی سزائے موت بحال کرنے کے لیے قانون سازی ہونے لگی۔میرے دلائل پر وہ بل اسمبلی میں پیش نہ کیا گیا یوں اکبر بگٹی بچ گئے۔ سید مرید حسین کہتے ہیں ایوب خاں ظالم بالکل نہیں تھے ورنہ وہ آدھا پاکستان مروا دیتے، اقتدار نہ چھوڑتے۔
سید مرید حسین