• news

کنٹرول لائن معاہدہ کی خلاف ورزی پر بھارت سے تجارت روکنا ہمارے مفاد میں نہیں: سینٹ میں حکومت کا جواب

اسلام آباد (خبر نگار خصو صی+ ایجنسیاں) وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوطرفہ تجارت کا توازن اس وقت بھارت کے حق میں ہے‘ کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے معاملے پر فی الحال بھارت کے ساتھ تجارت کو روکنا ہمارے مفاد میں نہیں ہوگا۔ سینٹ میں سلیم مانڈوی والا کے توجہ دلائو نوٹس کے جواب میں وزیر تجارت نے کہا کہ بعض حلقوں کا مطالبہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت ختم کی جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری مسلح افواج بھارت کی طرف سے ایل او سی کی خلاف ورزی کا منہ توڑ جواب دے رہی ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت 2.083 ارب ڈالر ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت بند کرنے سے بھارت کی معیشت پر کوثی اثر نہیں پڑے گا۔ گزشتہ سال بھارت کی پاکستان کے لئے برآمدات ایک ارب 78 کروڑ ڈالر تھیں جوکہ اس کی دنیا کے لئے مجموعی برآمدات کا 0.8 فیصد ہیں۔ ہم بھارت سے خام مال درآمد کرتے ہیں باہمی تجارت پر پابندی سے ہماری کچھ صنعتیں متاثر ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی بھارت کے لئے گزشتہ سال برآمدات سالانہ 3 ارب 30 کروڑ ڈالر رہیں جو کہ ہماری مجموعی برآمدات کا 14 فیصد ہیں۔ اگر ضرورت پڑی تو بھارت کے ساتھ تجارت روکنے پر غور کیا جائے گا۔ تاہم اس وقت باہمی تجارت روکنا پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ ادھر چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے حکومت کی جانب سے 5ریگولیٹرز اتھارٹیز کو متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کرنے کے حوالے سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر معاملے کو سینیٹ کمیٹی برائے تفویض کردہ قانون سازی کو بھجوا دیا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ایوان کو آگاہ کیا کہ حکومت کی جانب سے نیپرا، اوگرا، پی ٹی اے، پیپرا سمیت 5ریگولیٹری اتھارٹیز کو آئین اور رولز آف بزنس کے تحت متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کیا ہے۔وزارتوں کے ماتحت کرنے سے ریگولیٹرز اتھارٹیز کی خود مختاری متاثر نہیں ہوگی،ریگولیٹرز اتھارٹیز کی انتظامی ذمہ داریاں صرف متعلقہ وزارتوں کی دی گئی ہیں ، حکومت ریگولیٹرز اتھارٹیز کو صرف پالیسی گائڈ لائن دے سکتی ہے، اسکے سوا کچھ نہیں۔ تمام ریگولیٹرز اتھارٹیز جب بنی تو وہ متعلقہ وزارتوں کے ماتحت تھیں بعد میں ان کو مختلف وزارتوں سے الگ کیا گیا، جس پر چیئرمین سینٹ میاں ربانی نے کہا کہ آپ اس وقت کی بات کر رہے ہیں جب 18ویں ترمیم پاس نہیں ہوئی تھی، 18ویں ترمیم کے بعد ایسا کوئی بھی فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے پی آئی اے طیارہ حادثے پر توجہ دلائو نوٹس کا جواب موصول نہ ہونے پر سیکرٹری سول ایوی ایشن ڈویژن اور پی آئی اے کے متعلقہ ڈائریکٹر کو ایوان کا استحقاق مجروح کرنے کا نوٹس جاری کردیا۔ رضا ربانی نے کہاکہ پی آئی اے آسمان سے نہیں اتری ،اے ٹی آر طیارہ حادثے پر چیئرمین پی آئی اے کا استعفیٰ کافی نہیں،کا جواب نہ دینا پی آئی اے کا وطیرہ بن گیا۔ لوگ پی آئی اے کا سفر کرنے سے پہلے بکروں کی قربانی دے رہے ہیں۔ وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے سیکرٹری سینٹ کے پاس جا کر ان کو آگاہ کیا کہ توجہ دلائو نوٹس کو مؤخر کردیا جائے کیوںکہ اس کا جواب دینے کیلئے فی الحال متعلقہ وزیر موجود نہیںجس پر چیئرمین سینٹ نے کہاکہ اتنی لمبی چوڑی کابینہ ہے مگر توجہ دلائونوٹس کا جواب دینے کیلئے کوئی وزیر دستیاب نہیں۔اگر کوئی وزیردستیاب نہیں تھا تو قائد ایوان کو ہی آگاہ کردیتے۔ جواب نہ ملنے پر اپوزیشن نے احتجاجاً واک آئوٹ کیا سینیٹر مشاہد اللہ اپوزیشن کو منا کر واپس نہ لا سکے۔ علاوہ ازیں وقفہ سوالات کے دوران جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے ایوان کو بتایا کہ پاکستان نے ڈبلیو ٹی او کے رکن کی حیثیت سے بھارت اور اسرائیل کے سوا تمام ڈبلیو ٹی او رکن ممالک کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کی پیشکش کی ہے۔غیر معیاری بیجوں کی فروخت کو روکنے کے لئے سیڈ انسپکٹرز چالان کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برس کے دوران کپاس کے بیج فروخت کرنے والوں کے خلاف عدالتوں میں 544 چالان جمع کرائے گئے۔ 2014-15ء میں کپاس کے تصدیق شدہ معیاری بیج کی دستیابی 20ہزار میٹرک ٹن سے زائد تھی جو کہ 2015-16ء میں بڑھ کر 34 ہزار 520 میٹرک ٹن ہوگئی۔ 2016-17ء میں یہ بڑھ کر 29 ہزار 363 میٹرک ٹن تک پہنچ چکی ہے۔ ڈبلیو ٹی او قوانین کے تحت تمام ممالک اپنے تجارتی شراکت داروں کے ساتھ امتیاز نہیں کر سکتے۔ تجارت کے لئے کسی ملک کو پسندیدہ قرار دینے کا مقصد ان کو مساوی تجارتی فوائد فراہم کرنا ہے۔ بھارت نے ڈبلیو ٹی او کا رکن ہونے کے باوجود پاکستان کو تجارت کے لئے سہولیات نہیں دیں اور اس کے لئے نان ٹیرف رکاوٹیں پیدا کی ہوئی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن