• news
  • image

پاکستان نازک دور سے گزررہا ہے

پاکستان مسلم لیگ(ق)کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے لاہور میں مسیح رہنمائوں کے ہمراہ کرسمس کیک کاٹنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا۔’’پاکستان نازک دورسے گزررہا ہے‘‘یہی بات پاک فضائیہ کے سربراہ ائیرچیف مارشل سہیل امان نے پاک بحریہ کی 106ویں شارٹ سروس کورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ دونوں معززومحترم شخصیات نے پاکستان کے حالات کے تناظر میں درست کہا۔میں اکثر سیاسی ومذہبی رہنمائوں کی تقاریر اور بیانات میں یہ دردمندانہ الفاظ سنتا اور پڑھتا ہوںکہ ’’پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب امریکہ میں 9/11کا حادثہ ہوا اور امریکہ نے پاکستان سے مذہبی انتہا پسندوں کے خلاف تعاون کی اپیل کی توان دنوں میں اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں اس موضوع پر مذاکراہ ہواجس کی صدارت جنرل پرویز مشرف حکومت کے وزیر داخلہ جنرل معین الدین حیدر کررہے تھے۔ممتاز صحافیوں، سیاست دانوں اور دانشوروں نے حالات حاضرہ کے تناظر میں تقاریر کیں اور اکثر مقررین نے بڑے دردمندانہ انداز میں یہ کلمہ دھرایاکہ ’’پاکستان نازک دور سے گزررہا ہے‘‘ میں نے اپنی تقریر میں عرض کیا کہ مجھے پاکستانی ہونے پر شرم محسوس ہورہی ہے جس کا ملک معرض وجود میں آنے سے آج تک نازک دور سے ہی گزرتا چلاآرہا ہے۔آج مقررین کی تقریر یں سن کر اتنا پریشان اور خوفزدہ ہوا ہوں کہ پاکستان میں اب پیدا ہونے والے ہر بچے کے کان میں اذان دینے کی بجائے اس سے یہ نہ کہا جانا شروع ہوجائے۔’’ارے نادان کس ملک میں پیدا ہواہے جو ہر وقت نازک دور سے ہی گزررہا ہے‘‘ میری اس بات پر محفل کشت زعفران بن گئی اور اداس ماحول میں قہقے بلند ہوئے۔ پھر اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو کرتے ہوئے جو میں نے عرض کیا وہ نذرقارئین وقاریات ہے ۔میں نے کہا کہ پاکستان کو نازک دور میں رکھنے والے پانچ مجرم ہیں۔ حکمران،سیاست دان، جاگیردار،سرمایہ دار اور مولوی صاحبان۔پاکستان میں لیاقت علی خان کے بعد سول اور ملٹری بیوروکریسی نے لوٹ مار کی۔ یہ مقام تعجب ہے کہ مسلم لیگی قیادت قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد اتنی نااہل ثابت ہوئی کہ غلام محمد اور چوہدری محمد علی جیسے سول بیورو کریٹس بساط حکومت پر براجمان ہوگئے۔غلام محمد جیسا معزور ومریض،بد کلام ونا فرجام شخص ایک انگریز خاتون سیکرٹری کے نازک کندھوں اور نازک ہاتھوں کے بل بوتے پر حکومت کرتا رہا’’تفوبرتواے چرخ گردوں تفو‘‘ سکندر مرزا نے عنان حکومت سنبھالی۔مسلم لیگی شیروانیاں پہنے اور سروں پر جناح کیپ سجائے حکومتی غلام گردشوں میں محوگردش رہے پھر عسکری دور حکومت آیا۔فیلڈمارشل ایوب خان،جنرل یحییٰ خان،جنرل ضیاء الحق اور دور حاضر جنرل پرویز مشرف کا دور۔ پاکستانی سیاست پر تین قسم کے لوگ’’قبضہ گروپ‘‘کی صورت رہے۔ نوکر شاہی، جرنیلوکریسی اور سرمایہ دار سیاست دان۔ ان میں کوئی بھی ’’لیڈر‘‘نہ تھا۔سب حاکم تھے۔سب افسران تھے۔ سب سیاست دان تھے۔ لیکن افسوس صداافسوس کوئی ایک بھی صاحب فراست ودیانت رہنما نہ تھا۔بقول غالب …؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک رہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
میں نے عرض کیا غالب تو خوش قسمت تھا کہ اسے ’’رہرو‘‘ ہمسفر ملا مگر ہم بدنصیب ہیں کہ ہمیں نہ ’’رہرو‘‘ملا اور نہ ’’راہبر‘‘ ملا۔ ہمیں جو بھی ملا وہ ’’راہزن‘‘ ملا۔ جب ’’راہزن‘‘ ہمارے ’’راہبر‘‘ ہیں تو پھر تو ہر شخص یہی کہے گا…’’پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے ‘‘ دوسرا مجرم سیاست دان ہے۔ سرمایہ دار اور جاگیر دار ہمارے سیاست دان ہیں۔ موروثی سیاست ہے۔ برادری ازم ہے۔ قبیلائی نظام ہے۔ مزار عین ومساکین ووٹ دیتے ہیں اور اہل زر ووٹ لیتے ہیں۔ عوام غریب بھی ہے اور جاہل بھی۔ شعور حقوق سے عاری اور جمہوریت سے نابلد۔ جاہل اسمبلیوں میں براجمان اور صاحبان علم بیروزگار‘ اگر حقیقی جمہوریت کا اطلاق کرنا ہے تو سینٹ اور اسمبلیوں کیلئے امیدوار کی تعلیم گریجویشن اور ووٹ دہندہ کیلئے میٹرک کی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔ جمہوریت جاہلوں کا نہیں عاقلوں کا نظام حکومت ہے۔ تیسری لعنت جس نے پاکستان کو ’’دام نازک دور‘‘ میں پھانس رکھا ہے وہ جاگیرداری نظام ہے۔ برصغیر میں جاگیردار انگریزوں کے وفادار اور نمک خوار ننگ دین ووطن تھے۔ جاگیر بھی اسلام میں ممنوع ہے۔ زمین اللہ کی یعنی ریاست اسلامی کی ملکیت ہے۔ علامہ اقبال کے اشعار اور قائداعظم کے افکار جاگیرداری کے خلاف موجود ہیں۔ زمین کی انفرادی ملکیت کی ریاست اسلامی میں کوئی گنجائش نہیں۔ اب پاکستان میں روایتی جاگیرداری کے ساتھ ساتھ ایک نیا طبقہ پیدا ہوگیا ہے ۔ جو زمین کی بدولت سرمایہ دار بن گیا ہے۔ آبادی میں اضافہ کی بدولت نئی نئی کالونیاں بن رہی ہیں۔ دیہات شہربن رہے ہیں۔ دیہاتی زمینیں فروخت کررہے ہیں۔ جس زمین کی قیمت 5 ہزار روپے فی کنال تھی وہ اب پچاس لاکھ روپے فی کنال ہے۔ لینڈ مافیا نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ غریب کو تین مرلے کی زمین برائے تعمیر مکان اور تین گز زمین برائے قبر میسر نہیں۔ ایسے میں پاکستان نازک دور سے نہیں گزرے گا تو اور کیا ہوگا چوتھی لعنت سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ سرمایہ داروں کے کتے شاداں اور غریب کا بچہ نالاں۔ جوان لڑکیاں غربت کی چادر لپیٹے ماں باپ کے گھر میں بوڑھی ہورہی ہیں۔ نہ جہیز نہ زندگی کی راحت‘ نہ تعلیم نہ آسائش‘ آہ وزاری مقدر‘ فریاد و نالہ متاع دیوارودر‘ یہ تو پاکستانیوں کی معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی تباہ کاریاں ہیں رہی سہی کسر فرقہ پرست مولویوں اور جعلی پیروں نے پوری کر دی ہے۔ مذہبی اور روحانی استحصال نے ہمیں مذہب بے زار کر دیا ہے۔ توہمات اور رسومات رہ گئیں۔ بقول مرزا غالب …؎
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہوگئیں
دین حقیقی کی جگہ مذہب استعماری نے لے لی۔ ملوکیت وملائیت نے دیمک کی طرح نخل اسلام کو چاٹا۔ مادی استحصال اورروحانی اضمحلال ہمارا مقدر بنا۔ عقل وخرد کو چھوڑا‘ توہمات سے ناطہ جوڑا‘ جمہوریت کش ہوئے‘ آمریت کو خوش آمدید کہا۔ مساوات محمدی سے دور ہوئے‘ قائداعظم اور علامہ اقبال کے افکار سے روگردانی کی۔ بڑی نادانی کی تو پھر کیوں نہ ہر پاکستانی پکارے‘ ’’پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے ‘‘۔

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

epaper

ای پیپر-دی نیشن