• news

کرنسی بحران مودی کے گلے پڑ گیا‘ بی جے پی کو کئی ریاستوں کے انتخابات میں شکست کا خطرہ

نئی دہلی (بی بی سی) بھارت میں کرنسی بحران ایک بڑا سیاسی موضوع بن کر ابھر رہا ہے۔ ایک طرف وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے کچھ وزرا ملک کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے اس غیرمعمولی قدم سے ملک میں ایمانداری اور شفافیت کا ایک انقلاب آنے والا ہے تو دوسری جانب تجزیہ کار اس امر کے تجزیے میں مشغول ہیں کہ بڑے کرنسی نوٹ ختم کرنے کا وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت پر کیا منفی اثر پڑے گا۔ بی بی سی کے مطابق اپوزیشن جماعتیں بڑے کرنسی نوٹ ختم کرنے کے فیصلے کے لئے مودی سرکار پر بدعنوانی اور بدانتظامی کا الزام لگا رہی ہیں۔ اب وزیراعظم پر ذاتی طور پر الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ ملک کی سیاست خاصی تلخ ہوتی جا رہی ہے۔ نئی دہلی کی ان سیاسی ہنگامہ آرائیوں سے دور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر امت شاہ خاموشی سے اپنی توجہ ساحلی ریاستوں میں پارٹی کی پوزیشن مستحکم کرنے پر مرکوز کر رہے ہیں۔ امت شاہ نے سنہ 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں ان ریاستوں سے کم از کم نشستیں جیتنے کا حدف مقرر کیا ہے۔ مغربی بنگال، اڑیسہ آندھرا پردیش، تلنگانہ، کیرالہ، تامل ناڈو اور کرناٹک میں بی جے پی کی اس انتخابی حکمت عملی کو 'کورومنڈل پلان' کا نام دیا گیا ہے۔ تامل ناڈو میں جیا للیتا کی اچانک موت سے بی جے پی کے لیے جنوب میں نئے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اتر پردیش اور پنجاب میں نئے سال کے اوائل میں انتخابات ہونے والے ہیں۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کے لیے اتر پردیش میں جیتنا ضروری ہوتا ہے۔ بی جے پی کی امیدیں اس ریاست سے جڑی ہو ئی ہیں۔ وہ یہاں زبردست جیت کی امید کر رہی تھی۔ لیکن کرنسی نوٹوں کی پالیسی کے بعد اب وہ یہ محسوس کر رہی ہے کہ یہ اتنا آسان نہیں ہو گا۔ یہاں بی جے پی کو اکھیلیش یادو کی سماجوادی پارٹی سے زبردست مقابلے کا سامنا ہے۔ وہ اس اہم انتخابی محاذ پر تنہا ہے۔ وہ بڑے کرنسی نوٹ ختم کرنے سے پہلے جتنی پر اعتماد تھی اب اتنی پر امید نہیں دکھائی دے رہی۔ اتر پردیش اگر اس کے ہاتھ نہیں آتا تو یہ پارلیمانی انتخابات کے لئے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ امت شاہ اسی لئے اپنی توجہ اب ساحلی ریاستوں پر مرکوز کر رہے ہیں۔ انھیں اندازہ ہے کہ اتر پردیش ہی نہیں، ہریانہ، پنجاب، راجستھان، گجرات اور مدھیہ پردیش جیسی بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں بھی بی جے پی کی سیٹیں بڑھ نہیں سکتیں بلکہ گھٹنے کا امکان بہت زیادہ ہے۔ بی جے پی کو جو کمی شمالی انڈیا میں ہو گی وہ اسے ساحلی ریاستوں سے پورا کرنے کی کو شش کرے گی۔ اس نے ان ریاستوں سے سو نشتیں حاصل کرنے کا نشانہ رکھا ہے۔ فی الحال صورتحال بی جے پی کے لئے بہت حد تک موافق ہے لیکن پنجاب اور اتر پردیش کے انتخابی نتائج بی جے پی کے مستقبل کے امکانات کو سبوتاڑ کر سکتے ہیں۔ اگر پنجاب میں اروند کیجریوال کی جماعت آپ پارٹی اقتدار میں آ گئی تو یہ انڈیا کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا آغاز ہو گا۔ بی جے پی ایک مذہب مائل دائیں بازو کی جماعت ہے۔ عام آدمی پارٹی بھی ایک اقتصادی دائیں بازو کی پارٹی ہے۔ پنجاب کی جیت سے وہ پہلی بار ایک سیریس سیاسی چیلنج بن کر ابھرسکتی ہے۔ وہ نظریاتی طور پر بی جے پی کے لیے ہی نہیں آر ایس ایس کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار میں آنے سے قبل بدعنوانی کے خلاف بڑے بڑے وعدے کیے تھے۔ کرنسی نوٹ ختم کرنے کے فیصلے سے وہ جو امید کر رہے تھے بظاہر وہ تدبیر الٹی پڑ گئی ہے۔ پارٹی شمال میں پہلے ہی اپنی مقبولیت کے عروج پر پہنچ چکی ہے اور اب اس میں کمی ہی آ سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن