سراپا عاجزی و انکساری
محی الدین بن احمد دین
سابق صدر زرداری اور جناب مجید نظامی کے ’’مرد حر‘‘ کراچی میں ’’اچھے شو‘‘ کے ذریعے واپس آچکے ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف نے بھی انہیں خوش آمدید کہا ہے۔ 27 دسمبر محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کادن ہے۔ وہ لیاقت باغ میں اس وقت شہید کر دی گئی تھیں جب وہ جہالت‘ مذہبی انتہاپسندی‘ دہشت گردی کے خلاف دو ٹوک جنگ کا آغاز کر چکی تھیں۔ محترمہ کراچی ایئرپورٹ پر قرآن پاک کے زیرسایہ اتریں اور سرزمین وطن کو سجدہ کرتے ہوئے بوسہ دیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ان پر کراچی آمد ہی پر کارساز میں قاتلانہ حملہ ہو گیا تھا۔ جس میں ڈیڑھ سو جانثاران بھٹو شہد ہو گئے تھے۔ کیسا دلچسپ اتفاق زمانہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جن کو میں اس دن سے شہید سمجھتا اور لکھتا ہوں جب وہ ہم سے خواب میں ملنے ہمارے راول ٹائون اسلام آباد والے فقیرانہ گھر میں آئے تھے۔ خلیجی عربوں کے جلوس میں ہم سے کچھ ’’مانگ‘‘ بھی لیا تھا سینیٹر فرحت اللہ بابر کو اس کی تفصیل ہم نے بتا دی تھی اور انہوں نے دبئی میں محترمہ کو بتائی تھی جس پر وہ نہ صرف خوش ہوئیں بلکہ ہمیں بابر کے ذریعے ’’اشاراتی‘‘ پیغام بھی بھجوایا تھا۔ ہمارے سامنے اس وقت بھٹو جس کرب اور دکھ میں مبتلا تھا‘ وہی کرب ہم آج تک محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ بھٹو سے بہت غلطیاں ہوئیں مگر بھٹو نے ہی مسلم اکابرین کو لاہور میں جمع کیا۔ بھٹو ہی نے قذافی اور فیصل شہید کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو نئی سیاسی صف بندی دی۔ مگر غور طلب بات یہ ہے کہ بھٹو راولپنڈی میں تختہ دار پر چڑھے تو محترمہ لیاقت باغ میں شہادت کی سولی پر آویزاں ہو گئیں۔ کیسا اتفاق ہے؟
محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے شدید مخالف میاں نوازشریف سے جدہ جا کر ملاقات کی۔ شوہر زرداری کے ہمراہ نئی شریف بھٹو سیاست کی بنیاد رکھی تھی پھر میثاق جمہوریت کر کے ناممکن کو ممکن بنا دیا ۔ ایک مرتبہ میں نے اپنا خواب ان کے سیاسی رفیق حامد ناصر چٹھ کو سنایا وہ سناٹے میں آگئے اور مجھ سے محترمہ کی بہت سی خوبیوں کا تذکرہ کرتے رہے تھے۔ ہم 27 دسمبر کی شہادت پر محترمہ کے سامنے شرمندہ ہیں کہ ہم ’’ان‘‘ کو ’’اُن‘‘ سے نہ بچا سکے جو ان کو ہر قیمت پر نیست و نابود کرنے والے تھے۔ ہمارے خیال میں لیاقت علی خان‘ بھٹو‘ ضیاء الحق‘ بینظیر کی قاتل ایک ہی عالمی قوت اور ایمپائر ہے لہٰذا ہم ان سب کو عظیم شہداء تصور کرتے ہیں۔ خدا ان کی نیکیاں قبول اور خطائیں معاف فرمائیے۔ انہیں شہادت کے عظیم درجات پر فائز کرے۔ (آمین)
ہمیں افسوس ہے کہ آج پنجاب‘ پختونخوا میں پی پی پی مقبولیت کھو بیٹھی ہے۔ جب صدر زرداری خود فیصلہ ساز تھے تو ہم مسلسل لکھ رہے تھے کہ پنجاب میں پی پی پی کا مستقبل تاریک ہو چکا ہے۔ سندھ میں اور سکھر و لاڑکانہ کی ’’چند‘‘ اسمبلی سیٹوں کی خاطر کالاباغ مخالفت میں پختون و سندھی قوم پرستوں کو نام سے جاگیردار اور نفرت و تعصب سے سیاست کرنے والے بھول چکے ہیں کہ پی پی پی کی بنیاد تو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں رکھی گئی تھی اور بہت سے پنجابی اس وقت بھٹو کے اردگرد تھے۔ اگر لاہور میں پارٹی کی تشکیل ہوئی تو پنجابی آرزوئوں و تمنائوں اور خواہشوں کو ہمیشہ پی پی پی سیاست کی ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ رہنا تھا مگر افسوس صد افسوس پنجاب کو بے بس بنایا جا چکا ہے۔ آج ہم بلا قیمت مشورہ دیتے ہیں کہ اگر کوئی ’’بھٹوز‘‘ کا حقیقی وارث اور ان کی سیاسی میراث کو پنجاب اور بطور خاص جنوبی پختونخوا میں زندہ اور مقبول عام بنانا چاہتا ہے تو اسے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مؤقف اسی سچائی‘ دلیری‘ یقین محکم سے پیش کرنا چاہئے جیسے سابق چیئرمین واپڈا‘ شمس الملک اور ان جیسے دوسرے قوم کی حقیقی ترجمانی اور رہنمائی کر رہے ہیں۔