زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام ۔۔۔۔۔
دنیا جینئس مردوں سے بھری پڑی ہے لیکن جینئس عورتوں کا ہونا کسی بھی ملک ، قوم ، برادری ، خاندان اور مرد کیلئے اتنا بڑا اعزاز ہے جو نہ تو دنیا کے ڈھائی سو ممالک میں ہر ملک کو نصیب ہوا ہے اور نہ ہی ہر قوم کے حصے میں کوئی بڑی ، عظیم ، ناقابلِ شکست اور فاتح عورت جنم لیتی۔ دنیا کے ڈھائی سو ممالک میں سے صرف ڈھائی درجن عورتیں سربراہِ مملکت بنی ہیں ۔ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون سربراہ ہونے کا اعزاز حاصل کرنیوالی بے نظیر بھٹو جو ذوالفقار علی بھٹو کے گھر میں 21 جون 1953ء کو پیدا ہوئیں اور صرف 54 برس کی عمر میں 27 دسمبر 2007ء کو شہید ہو گئیں ۔ بے نظیر بھٹو کا کردار شاندار اور بے داغ تھا ۔ انکی ساری تعلیم مغربی طرز کے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹی میں ہوئی ۔ بے نظیر بھٹو نے آکسفورڈ جیسی درسگاہ سے تعلیم حاصل کی۔ اس زمانے میں انہوں نے یونیورسٹی کے مروجہ اصولوں کیمطابق جینز اور شرٹس ضرور استعمال کیں لیکن یہ لباس ناموزوں ہرگز نہیں تھا ۔ آج دخترانِ مشرق جینز اور ٹی شرٹس بلکہ سلیو لیس میں گھوم رہی ہیں ۔ وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ، انکا تعلق ایلیٹ کلاس سے بھی نہیں بلکہ اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کا تعلق ایلیٹ کلاس سے تھا ۔ وہ امیر زادی تھیں ۔ انکے والد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملک کے وزیراعظم تھے جبکہ والدہ انتہائی تعلیم یافتہ اور جدید ذہن کی مالک تھیں ۔ بے نظیر بھٹو کا زیادہ وقت مغرب میں گزرا ۔ دیکھا جائے تو وہ ملک میں نسبتاً کم رہیں اور بیرون ممالک میں انکی زندگی زیادہ گزری ہے لیکن باہر رہنے کے باوجود وہ مشرقی ذہنیت اور فطرت کی حامل خاتون تھیں ۔ وہ دنیا کی سب سے کم عمر خاتون وزیراعظم ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ اپنی طالبعلمی کے زمانے میں ہی وہ 100 سربراہانِ مملکت سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکی تھیں ۔ یہ نہیں تھا کہ وہ وزیراعظم کی بیٹی ہونے کے ناطے پروٹوکول سے لطف اندوز ہوتی تھیں یا اپنے باپ کے نام ، جائیداد شہرت ، عزت اور عہدے کا فائدہ اٹھاتی تھیں ۔ بے نظیر بھٹو کی اس زمانے کی تصاویر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ تصاویر میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کی یہ ذہین و فطین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی سادہ لباس میں ہے ۔ نہ تو کوئی قیمتی لباس زیب تن کر رکھا ہے ۔ نہ بنائو سنگھار ، نہ جیولری اور نہ پروٹوکول ۔ لیکن ہر جگہ بے نظیر بھٹو نمایاں نظر آتی ہیں ۔ بے نظیر بھٹو کیلئے پاکستان جیسے ملک میں سیاست کرنا ، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر بننا نہایت تکلیف دہ مرحلہ تھا کیونکہ پاکستانی سیاست سازشوں ، الزامات ، دولت ، کرپشن ، چاپلوسی ، کلر بازی ، طاقت اور گھنائونے سکینڈلز کا ملغویہ ہے جہاں کوئی نیک ، شریف ، مہذب اور تعلیم یافتہ عورت کا چلنا ناممکن نہیں لیکن کٹھن ضرور ہے ۔ بے نظیر بھٹو نے بھی ان سب منفی ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا ۔ بے نظیر کی ذہانت ، مقبولیت ، عزت ، شہرت اور عظمت دقیانوسی اذہان کو گراں گزرتی تھی ۔ بے نظیر بھٹو کیساتھ صرف ماں کا پر ظوص رشتہ تھا لیکن مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد نصرت بھٹو کی یادداشت جاتی رہی اور وہ شدید بیمار پڑ گئیں ۔ بے نظیر بھٹو نے بیماریاں ، بچوں ، جیل میں موجود شوہر ، پارٹی ، اپوزیشن ، ملکی حالات اور سازشوں کا تن تنہا مقابلہ کیا ۔ جن لوگوں نے بے نظیر بھٹو کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو انتہائی خوبصورت خاتون تھیں ۔ میری ان سے 1992ء میں تین ملاقاتیں ہوئیں ۔ وہ بہت خوبصورت اور شاندار خاتون ہونے کے علاوہ خوش اخلاق تھیں ذرا سی بھی مغرور نہیں تھیں ۔ میں نے ان سے کہا کہ انٹرویو چاہئے ۔ بے نظیر بھٹو نے سلمان تاثیر سے کہا کہ یہ آپکے ساتھ وقت طے کر لیں گے ۔ اسکے بعد میری دو ملاقاتیں فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہوئی لیکن شدید رش کی وجہ سے بات سلام دعا سے آگے نہ بڑھ سکتی ۔ 1997ء کی ان دو ملاقاتوں کے بعد میری دو طویل ملاقاتیں 1999ء اور 2000ء میں ہوئیں ۔ اس دوران انہوں نے مجھے پہلے ناہید خان کے ذریعے پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ۔ پھر مجھے خود پارٹی عہدہ اور آئندہ الیکشن کیلئے ریزرو ٹکٹ کی آفر کی لیکن میں نے انہیں بتایا کہ میرے باپ دادا مسلم لیگی ہیں اسلئے میرے لئے آپکی پیشکش قبول کرنا ممکن نہیں بے نظیر بھٹو نے برا نہیں منایا بعد میں میری سیاسی کتاب کا فلیپ بھی لکھا ۔انہیں زندگی کا ساتھی بھی اپنے جیسا مخلص ، عظیم اور قد آور ملتا یا کم از کم جو انکا قدردان ہوتا ۔ دکھ تو یہ بھی ہے کہ اس قوم نے اس عظیم المرتبت عورت کی قدر نہیں کی ۔ بے نظیر کو کھو کر پاکستان نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔