• news
  • image

زندہ ہے بھٹو زندہ ہے

9 سال پہلے انہونی نے ملک کے طول و عرض میں ارتعاش پیدا کیا تھا۔ 27 دسمبر 2007ء کی رات بھولنے والی نہیں جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کی خبر سن کر ہر چھوٹا بڑا مرد و زن سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں نکل آئے تھے۔ ہر سو صدائے احتجاج بلند ہو رہی تھی۔ آگ لگائی جارہی تھی۔ راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کے بعد محترمہ جلسہ گاہ سے جاتے ہوئے ہجوم کے والہانہ جذبوں کا جواب دینے کیلئے گاڑی کی سن روف سے نمودار ہوئیں۔ عین اسی لمحے انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ وہ اپنی شہادت سے چند ہفتے قبل 18 اکتوبر 2007ء کو طویل جلاوطنی سے واپسی پرساتھ شیدائیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ وہ خوشی سے نہال تھیں۔ انکے قدم جونہی ارضِ پاک پر لگے وہ اپنی آنکھوں سے بہنے والے آنسوئوں پر قابو نہ رکھ سکیں۔ جلاوطنی کے آٹھ سال ان کیلئے انتہائی مشکل رہے۔ وہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ انہوں نے مشرف آمریت سے پہلے ضیاء آمریت کے کٹھن ماہ و سال دیکھے تھے جب انکے والد ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا تھا۔ بھٹو کے دیوانوں نے خودسوزیاں کی تھیں۔ رحم کی اپیلوں کی بھرمار تھی لیکن ضیاء الحق کے سنگ دل پر کوئی پکار کوئی اپیل اثر نہ کر سکی۔ دنیا نے دیکھا کہ اسی دیس میں ریمنڈ ڈیوس جیسے امریکی بدمعاش دن دیہاڑے پاکستانیوں کا خون کرنے کے بعد بچ نکلے بلکہ نکال دیئے گئے۔ کئی بااثر پاکستانی ریمنڈ ڈیوس بھی قتل کی سزا بھگتے بغیر سرحد پار کر گئے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ ہے۔ وہ ایک زیرک سیاستدان، ہوش مند رہنما، بُردبار خاتون اور شفیق ماں تھیں۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے انکے شوہر آصف علی زرداری کیلئے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ وہ پورے پانچ سال ایوان صدر میں صدر مملکت کے عہدہ پر براجمان رہے۔ پانچ سال بعد انہیں پورے اعزاز و اکرام سے رخصت کیا گیا۔ عمران خان کے بقول انکے بعد نواز شریف کی باری تھی چنانچہ 2013ء میں انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔ اگر باری باری کی بات کو صحیح مان لیا جائے تو اگلی باری دوبارہ مردِ حُر کی ہو گی۔ وہ ڈیڑھ سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد کہہ چکے ہیں بھاگوں گا نہیں، پھر حکومت بنائینگے۔
آصف زرداری کی اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا کہ جمہوریت کا متبادل بھیانک ہے۔ پیپلزپارٹی کی اصل جان ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ انکی کرشماتی شخصیت نے غریب محروم اور محکوم عوام کو اپنے پیچھے لگا رکھا تھا۔ بھٹو کے جلسوں میں جوش و خروش دیدنی ہوتا تھا۔ ہر طرف جئے بھٹو کی صدائیں بلند ہوتی تھیں۔ بے نظیر کے بعد انکے شوہر آصف زرداری کے دور حکومت کو تاریخ انکے کارناموں کی بدولت نہیں بلکہ مفاہمتی سیاست کے حوالے سے یاد رکھے گی۔ اس حوالے سے بھی یاد رکھے گی کہ کسی اور حکومت نے 5 سال کی آئینی مدت پوری کی۔ انکے عہد میں دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ نے عوام کو خوب رُلایا۔ یہ دونوں لعنتیں آج بھی محکموں کا پیچھا کئے ہوئے ہیں گو اُس دور کی نسبت ان لعنتوں کی شدت آج کم ہے۔ بے نظیر کے فرزند قدم آگے بڑھا رہے ہیں۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو سے اب تک کی تاریخ، سیاست ازبر ہو گی۔ انہیں معلوم ہو گا کہ انکی والدہ کا دور ریشہ دوانیوں کا ایسا شکار ہوا کہ انہیں اپنے عہدے سے ہٹنا پڑا۔ انہیں موقع نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے نظریات اور سوچ کے مطابق عوام سے کئے ہوئے وعدے پورے کر سکیں۔ پاکستان میں اب مذہبی اور نظریاتی سیاست کیلئے جگہ تنگ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بیوروکریسی اور سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کی نگہبانی کرنیوالا سیاستدان اور سیاست پنپ سکتی ہے۔ احتساب اور اصولوں کی سیاست کا خیرمقدم کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ ناکام اور کمزور سیاستدانوں کے پاس اسکے سوا کوئی آپشن نہیں کہ وہ نواز شریف کے پیچھے چلیں۔
بلاول ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ضرور ہیں لیکن اپنے نانا اور ماما جیسا مقام پانے کیلئے انہیں بہت انتظار کرنا ہو گا۔ بلاول اپنا اندازِ تخاطب نواز شریف جیسا کر لیں تو وہ سامعین کے دلوں میں اترنا شروع ہو جائینگے۔ بے نظیر بھٹو شہید کی قربانی کو رائیگاں نہ ہونے دینا صرف بلاول ہی کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر اس جیالے کی ذمہ داری ہے جس کا نعرہ ہے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ جیالے یہ جان گئے ہیں کہ بلاول اور انکے پاپا کے انداز فکر اور اطوار سیاست میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کراچی میں چند منٹوں کے خطاب میں وہ ایک مدبر سیاستدان کی طرح بولے۔ سیاست میں غیرسنجیدگی فقرے اور جگت بازی نوجوان نسل کو کیا پیغام دے رہی ہے۔ زرداری صاحب وطن سے جانے کے بجائے یہاں رہ کر پیپلزپارٹی کو ازسرنو جاندار پارٹی بنانے کی کوشش کریں۔ بلاول کیلئے بہترین ہدایت کار بنیں۔ 2017ء کے آغاز سے ہی سیاست نیا رُخ اختیار کرنے جارہی ہے۔ 2018ء عام انتخابات کا سال ہے۔ حکومت پانامہ لیکس میں پھنسی ہے۔ انہیں میثاق جمہوریت کو بھی نبھانا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن