• news
  • image

بے نظیر کا مشن

27 دسمبر 2007ء کی منحوس شام نے پاکستانی قوم کی امید کی کرنوں کو غروب ہوتے دیکھا۔ شہید بی بی کو اشارے کنائیے سے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ ملک میں آپکی جان کو خطرہ ہے۔ آپ مت آئیے۔ مگر محترمہ اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھیں کہ انہیں اپنے لوگوں میں جان کا کوئی خطرہ ہوسکتا ہے۔ محترمہ جب آخری مرتبہ لاہور تشریف لائیں تو انہیں ایک بزرگ صحافی نے کہا کہ ملک میں جس قدر بدامنی، بے چینی اور انتشار ہے یہ وقت آپکی وطن واپسی کیلئے مناسب نہیں تھا تو تمام تر احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے شہید جمہوریت نے کہا کہ مناسب وقت کا کب تک انتظار کیا جائیگا۔ اس ملک کے مجبور اور بے بس عوام کی تقدیر جمہوریت کی بحالی سے ہی بدلی جاسکتی ہے اور ان انتخابات میں حصہ لے کر ہی انکے حقوق لوٹائے جاسکتے ہیں کب تک ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا جائے۔ کسی کو تو آخر کار امید کی مشعل جلانا ہے۔ یہی سوچ کر میںجان کی پرواہ کئے بغیر میدان میں اتری ہوں۔ آپ میرے لئے دعا کریں۔18 اکتوبر کراچی میں سانحہ کار ساز ہوا جوکہ خوف دلانے اور میدان چھوڑنے کا پیغام تھا مگر محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے 3 اپریل 1979ء کو شہید بابا کو دیا ہوا قول زندگی کی آخری سانس تک نبھایا کہ وہ پاکستانی عوام کو کبھی تنہا نہیں چھوڑیں گی۔ قائد عوام نے محترمہ سے انکی سالگرہ پر خط لکھتے ہوئے کہا تھا کہ اللہ کی جنت ماں کے قدموں تلے ہوتی ہے۔ اسکی خدمت کرو گی تو جنت ملے گی اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہوتی ہے۔ انکی خدمت کرو گی تو سیاست کی جنت ملے گی۔ محترمہ شہید بابا کی نصیحت زندگی کے آخری لمحے تک پلے باندھ کر رکھا۔ محترمہ شہید کی زندگی کا محض ایک ہی نصب العین تھا کہ ملک میں عوامی راج قائم ہو اور عوام کی زندگی کے وہ بنیادی حقوق حاصل ہوں جس کیلئے وہ آج ترس رہے ہیں۔ محترمہ شہید نے جب 24 سال کی عمر میں سیاست کے خار زار میں قدم رکھا تو انہوں نے ایک معتدل سیاست اور متوازن شخصیت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انتقام کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے وسیع تر قومی مفاد اور اتحاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہا کہ شہید کی فکر کا تقاضا ہے کہ جمہوریت بحال کر کے انتقام لیا جائے اس لئے قوم اپنے غم و غصے کا اظہار ووٹ کے ذریعے کریں۔ اس وقت پی پی پی شہید محترمہ کے مشن کی تکمیل کیلئے تمام تر سوگواری سمیت مصروف عمل ہے۔اس سوگواری کی فضا کو ومکدر کرنے کیلئے وفاق دشمن عناصر کے ساتھ مل کر اس وقت جس سازش میں مصروف ہیں در حقیقت اور لسانی و علاقائی منافرت پھیلانے کا منصوبہ ہے جس کا نتیجہ وفاق کو نقصان پہنچانے کے علاوہ اور کوئی نہیں نکل سکتا۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو ملک کے چاروں صوبوں کو متحد رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ وہ قائد عوام اور شہید جمہوریت کے مشن کی تکمیل تک خون کے آخری قطرے تک برسر پیکار رہے گی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بعض وفاق دشمن عناصر بڑے صوبے کی عددی برتری کو سامنے رکھتے ہوئے اقتدار پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام کیا سوچتے ہیں اور وفاق پاکستان کو کن باتوں سے مشروط کرتے ہیں۔
۔مجھے بیتے دنوں کی وہ یادیں جو، اب میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہونے کی ترغیب دیتی ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے26 دسمبر 2007ء کو جب مجھے فون پر رحمان ملک نے کہا کہ بی بی آپ سے بات کریں گی۔ جس وقت بی بی شہید پشاور کا کامیاب جلسہ کر کے اسلام آباد واپس جارہی تھیں۔ بی بی شہید نے مجھے کہا کہ آپ پنجاب میں بہت اچھا کام کر رہے ہو اور آپ میرے میڈیا ایڈوائزر کے طور پر پارٹی پالیسی کے مطابق میڈیا سے رابطہ رکھے ہوئے ہیں اور آپ انتہائی اچھا کام کر رہے ہیں۔ پشاور کے جلسے سے وہ بہت خوش تھیں۔ انہوں نے اپنے بلیک بیری سے مجھے تصویریں بھیجی اور کہا دیکھو پاکستان کی عوام میرے ساتھ ہیں۔ میرے لئے اپنی خدمات کا بہترین صلہ تھا کہ میری قائد مجھے آج کے ابلاغی دور میں اپنی سوچ فکر اور زبان ہونے کا درجہ دے رہی تھیں۔ میں نے آخری وقت تک شہید قائد کے میڈیا ایڈوائزر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ مجھے 2008ء کے انتخابات میں پنجاب میں پارٹی کی میڈیا مہم کیلئے انہوں نے کہا کہ وہ 6 جنوری 2008ء کو لاہور آئیں گی تو میرے گھر میں آنے کیلئے بھی تھوڑی دیر کیلئے وقت نکالیں گی میں نے اسکی تیاریاں شروع کردیں اور کچھ کالم نویس دوستوں کو انکے ساتھ ملاقات کا پروگرام ذہن میں تیار کیا مگر انسان سوچتا کچھ ہے اور خدا کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کو منحوس شام نے ہم سے امید کی کرن چھین لی ہم ایک ہولناک مستقبل کی طرف دھکیل دئیے گئے۔ اس دوران آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر ملک کی چاروں اکائیوں کو مضبوط کیا۔میری فیملی2007ء میں انکے دبئی کے قیام کے دوران میرے ساتھ گئی اور شہید قائد سے ملاقات کی محترمہ نے میرے بچوں سے کہا کہ زندگی میں بڑا کام کرنا ہو تو اس کیلئے سب سے بڑا حوصلہ چاہئے۔ میری بیٹی نے محترمہ سے ہونیوالی ملاقات اپنی ڈائری میں لکھی تھی اور وہ اپنی ڈائری کے ورق کھولتی تھی تو مجھے روتے ہوئے کہتی تھی پاپا یہ آمریت کب تک ہم سے ہمارے آورش چھینتی رہے گی۔ آپ سے بھی ایک جنرل نے آپ کا قائد چھین لیا اور ہم پہ بھی یہی سانحہ گزرا ہے۔ بیٹی کی باتیں سن کر سوچتا ہوں کہ ملک قوم اور وفاق کیلئے جانیں قربان کرنے کیلئے اللہ تبارک تعالیٰ نے بھٹو خاندان کو چن لیا تھا۔ مشکلات پریشانیوں میں ڈال کر امتحان صرف اپنے عزیز اور پیاروں سے لیتا ہے۔ پاکستانی قوم اس امتحان میں ضرور پوری اترے گی اور جناب چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی رہنمائی میں محترمہ کے مشن کی تکمیل کریگی۔ اب بلاول بھٹو زرداری نے چیئرمین کی حیثیت سے پارٹی کی کمان پوری طرح سنبھال لی ہے۔ وہ پاکستان کی عوام کی آخری امید ہیں، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری جس طرح پارٹی فعال کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کی عوام، پیپلز پارٹی کے کارکن اور لیڈران کی قیادت میں متحد ہیں۔ مفاہمت کی سیاست کو کمزوری سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ آئیں ہم سب ملکر اس بات کا عہد کریں کہ ہم آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں متحد ہو کر محترمہ کے دئیے ہوئے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ 2018ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے ملک کو صحیح معنوں میں ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرینگے۔ پاکستان کی غریب عوام کو صحت کی سہولتیں، روزگار کے مواقع صحیح معنوں میں تعلیمی نظام اور برابری کی سطح پر تمام اقلیتوں کو بھی ساتھ لے کر ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

چودھری منور انجم

چودھری منور انجم 

epaper

ای پیپر-دی نیشن