• news
  • image

بی بی ہم شرمندہ ہیں

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ گزارا ہوا وقت اور اس دوران ایسے بے شمار واقعات میرے ذہن میں ہیں ،جنہیںروزانہ ایک کے حساب سے بھی یاد کروں تو باقیماندہ زندگی گزارنے کیلئے میرے پاس یادوں کا حسین ذخیرہ موجود ہے اور وہ لوگ جنہیں انکی شہادت کے نو سال بعد بھی ان کی اسلام سے وابستگی سے متعلق شکوک و شبہات موجود ہیں، ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ ایک دفعہ میں محترمہ کے ہمراہ ورجینیا (امریکہ) میں ان کے کسی جاننے والے کے ہاں سے روانہ ہوئے تو راستے میں اچانک محترمہ نے گاڑی روکنے کیلئے کہا اور محترمہ اپنے اردگرد کچھ ڈھونڈنے لگ گئیں۔ پوچھنے پر خاصی پریشانی کے عالم میں انہوں نے بتایا کہ ان کی بہت ہی ضروری ٹیلی فون نوٹ بُک گم ہو گئی ہے مل نہیں رہی۔ میں جو اس سے چند لمحے پہلے ان سے دینی موضوعات پر بحث کر رہا تھا تو محترمہ نے مجھ سے پوچھا مطلوب کیا آپکو پتہ ہے کہ جب کوئی چیز گم ہو جاتی ہے تو کونسی دعا پڑھتے ہیں؟ اس اچانک سوال پر مجھے فوری طور پر کچھ سمجھ نہ آیا تو محترمہ نے مجھے کہا کہ میں اپنی بیوی کو جو ان دنوں بچوں کیساتھ نیوجرسی میں رہائش پذیر تھیں کو کال کروں جیسے ہی کال ملی محترمہ نے میری بیوی سے چیز گم ہو جانے کی صورت میں پڑھی جانیوالی دعا کے متعلق پوچھا تو میری بیوی نے بتایا کہ کسی بھی چیز کی گمشدگی کی صورت میں اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھتے ہیں۔ محترمہ نے یہ دعا دہرائی ابھی چند ہی منٹ گزرے تھے کہ ورجینیا سے ہمارے میزبان کی کال آ گئی کہ محترمہ اپنی ٹیلی فون ڈائری انکے ہاں چھوڑ آئی ہیں۔ ہم اسی وقت واپس مڑے اور وہ ڈائری لینے کے بعد واشنگٹن روانہ ہو گئے۔قارئین! یہ ایک چھوٹا سا واقعہ اس بات کا غماز ہے کہ محترمہ شہید کا دینِ اسلام پر کس قدر مضبوط اور پکا ایمان تھا۔ اپنے تینوں بچوں سے وہ اس قدر پیار کرتی تھیں کہ متعدد بار زمینی یا ہوائی سفر کے دوران وہ بچوں کی فلپائنی آیا کو ٹیلی فون پر یا ای میل پر مسلسل ہدایات دیتی اور رپورٹس طلب کرتیں جبکہ بچوں کی دینی تعلیم کیلئے ایک مستند ٹیوٹر مقرر کر رکھا تھا۔ اگر کہیں غلطی سے بھی شہید محترمہ کے سر سے دوپٹہ یا سکارف ڈھلک جاتا تو چاہے کتنی بھی ضروری گفتگو ہو رہی ہوتی محترمہ رک کر اپنے سر پر دوپٹہ درست کرتیں۔ ایک دفعہ انکی سالگرہ کے قریبی دنوں میں مجھے دوبئی جانا تھا تو میں نے بہت خوبصورت فرانسیسی سکارف کا سیٹ لیا اور سالگرہ کے روز انہیں ڈائننگ ٹیبل پر پیش کیا۔ کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے لوگ ایران سے آئے ہوئے محترمہ کے قریبی عزیز تھے۔ وہ بھی سالگرہ کی مناسبت سے تحائف ساتھ لائے تھے۔ سب گھر والوں کے سامنے محترمہ نے کہا کہ مطلوب کے لائے ہوئے سکارف آج کا سب سے اچھا تحفہ ہیں۔ محترمہ شہید دورانِ سفر ہی نہیں بلکہ گھر بیٹھے ہوئے یا کسی تقریب میں بھی تسبیح کا مسلسل ورد کرتی رہتیں تھیں اور اکثر میلاد کی محافل میں شریک ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت محترمہ سے قریبی قربت کی وجہ سے اکثر جرنلسٹس مجھ سے سوال کرتے تھے کہ آپ محترمہ کے ساتھ رہتے ہو اور آپ نے کیا محسوس کیا کہ محترمہ کا مسلک اور عقیدہ کیا ہے؟ اور میں ہر دفعہ اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنا پر جواب دیتا کہ محترمہ میں ایک اچھے سنی، شیعہ ، اہل حدیث کی تمام اچھی خوبیاں موجود ہیں، وہ مکمل ایمان رکھنے والی سادہ سی مسلمان تھیںاور پھر سارا پاکستان اس بات کا گواہ ہے کہ 18اکتوبر 2007ء کو جب وہ پاکستان کیلئے روانہ ہوئیں تو ان کی ہدایت کے مطابق انہیں قرآن مجید کے نیچے سے گزارا گیا اور آج انکی شہادت کے بعد بھی پورا پاکستان چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اب کی بار جب وہ پاکستان آئی تھیں تو وہ 1988 سے بالکل مختلف بے نظیر بھٹو تھیں۔ میچوریٹی ،ذہانت انکے چہرے پر دیکھی جا سکتی تھی۔ موت کو ہر وقت یاد رکھنے والی اس عظیم خاتون کا واقعہ آپ کو بتاتا ہوں۔ 24دسمبر 2007ء کو رحیم یار خان کے سٹیڈیم میں جب وہ عوام سے خطاب کر رہی تھیں، میں اور عبدالقادر شاہین اور بے شمار دوسرے قائدین انکے ساتھ سٹیج پر موجود تھے۔ ہم سیکیورٹی کا جائزہ لے رہے تھے تواسی دوران میرا اور عبدالقادر شاہین کا فیصلہ ہوا کہ کیوں نہ ہم جلسہ کے اختتام سے پہلے بہاولپور روانہ ہو جائیں ،جہاں اسی دن شام کو پانچ بجے بہاولپور سٹیڈیم میں محترمہ نے خطاب کرنا تھا۔ ہم دونوں بہاولپور کیلئے محترمہ کو بتائے بغیر نکل آئے اور راستے میں ہی تھے کہ باجی ناہید خاں کی کال آئی وہ کہہ رہی تھیں محترمہ پوچھ رہی ہیں کہ مطلوب اور قادر شاہین میری تقریر کے دوران سٹیج سے غائب ہو کر پتہ نہیں کہاں چلے گئے ہیں۔ بہاولپور سٹیڈیم جلسہ کے مقام پر پہنچ کر میں اور عبدالقادر شاہین نے دیکھا کہ سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہیں تھے جس پر ہم نے مقامی انتظامیہ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا اور فوری طور پر سیکیورٹی کے انتظامات بہتر بنانے کیلئے فوری ہدایات دیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد محترمہ رحیم یار خان سے ریلی کی صورت میں بہاولپور پہنچ چکی تھیں۔ جب وہ سٹیڈیم کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آئیں تو سٹیج پر مجھ پر نظر پڑتے ہی مجھے پاس بلایا اور کہا ’’کیا اس طرح سے تم مجھے بچا لو گے؟‘‘اور پھر میں تو کیا کوئی بھی انہیں 27دسمبر کو پیش آنیوالے سانحے سے نہ بچا سکا کیونکہ قاتلوں نے منصوبہ بندی ہی کچھ اس طرح سے کی تھی کہ وہ آخر کہاں تک بچ پاتیں۔ چونکہ میں انکے قتل کی سازش کا اتفاقیہ طور پر عینی شاہد ہوں مگر پاکستان کی اعلیٰ عدالت نے نہ صرف مجھے طلب نہیں کیا بلکہ پیپلزپارٹی کے گذشتہ پانچ سالہ دور میں بی بی شہید کے قتل کیس کو نمٹانے کے بجائے دبانے کیلئے حربے استعمال کیے گئے۔ بائیس کروڑ عوام پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ جو کام ضیا الحق نہ کر سکا وہ کام بی بی کے وارثوں نے کر دکھایا۔ آج پیپلزپارٹی کو ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی بنا دیا گیا ہے اور اسکے پچاس فیصد حِصص آصف علی زرداری نے اپنے پاس رکھ لیے اور باقی پچاس فیصد بلاول، بختاور، آصفہ اور فریال تالپوری میں برابر تقسیم کر دیئے ہیں لیکن عوام اور کارکنوں کی حمایت سے محروم یہ دیوالیہ سیاسی کمپنی اب کبھی پائوں پر کھڑی نہ ہو سکے گی کیونکہ یہی شہیدوں کے لہو سے غداری کی سزا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن