• news
  • image

وفاقی وزارت داخلہ کا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد میں ناکامی کا اعتراف

وفاقی وزارت داخلہ نے نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کی سال 2016ءکی جائزہ رپورٹ جاری کردی ہے جس میں اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ نیپ مو¿ثر طریقے سے دہشت گردوں اور انکی تنظیموں کی مالی معاونت روکنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ رپورٹ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کی منظوری کے بعد جاری کی گئی ہے جو پہلے ہی شدت پسندی سے نمٹنے میں حکومتی ناکامی پر شدید تنقید کی زد میں ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے نام بدل کر کام کرنے کا سلسلہ بھی ختم نہیں کیا جاسکا۔ رپورٹ میں نیشنل ایکشن پلان کے چار نکات کی نشاندہی کی گئی ہے اور اعتراف کیا گیا ہے کہ ان نکات پر عملدرآمد کی رفتار تیز نہیں کی جاسکی۔ کراچی کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہر قائد میں ٹارگٹ کلنگ 69 فیصد کم ہوئی ہے جبکہ دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد کمی آئی ہے۔ 

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ رواں ماہ سول ہسپتال کوئٹہ دھماکے کی تحقیقات کیلئے تشکیل دیئے گئے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے معاملہ میں عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور باور کرایا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے حوالے سے کشمکش کا شکار ہے‘ نیشنل سکیورٹی پالیسی پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا جبکہ قومی لائحہ عمل کے اہداف کی مانیٹرنگ بھی نہیں کی جاتی‘ کمیشن کی رپورٹ میں وزارت داخلہ کے کردار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سانحہ¿ کوئٹہ پر وفاقی اور صوبائی وزراءداخلہ نے غلط بیانی کی‘ وزارت داخلہ کے حکام وزیر داخلہ کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں جبکہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں وزارت داخلہ کو اسکے کردار کا علم ہی نہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نے تحقیقاتی کمیشن کی اس رپورٹ پر چیں بجبیں ہوتے ہوئے کمیشن پر بداعتمادی کا اظہار کیا‘ اپنی ہنگامی پریس کانفرنس میں کمیشن کی کارکردگی کو سخت الفاظ میں تنقید کا نشانہ بنایا اور کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی کیا جبکہ اب انکی منظوری کے ساتھ وفاقی وزارت داخلہ کی جاری کی گئی سالانہ رپورٹ میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے نیشنل ایکشن پلان کی متعلقہ شقوں پر عملدرآمد میں حکومت کی ناکامی کی بعینہ نشاندہی کی گئی ہے جس کی کوئٹہ کمیشن میں نشاندہی ہونے پر وفاقی وزیر داخلہ نے برافروختگی کا اظہار کیا تھا۔
دو سال قبل سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد ملک کی عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے یکسو ہو کر شمالی وزیرستان میں اپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا جس کا دائرہ کار بعدازاں جنوبی پنجاب سمیت ملک بھر میں وسیع کیا گیا۔ اس اپریشن کو مو¿ثر‘ مضبوط اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ملک کی تمام قومی سیاسی قیادتوں نے نہ صرف اسکی بیک آواز تائیدکی بلکہ وزیراعظم نوازشریف کی طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دینے میں بھی معاونت کی۔ اس طرح اس 20 نکاتی اپریشن ضرب عضب کو تمام قومی‘ سیاسی‘ حکومتی اور عسکری قیادتوں کی مکمل تائید حاصل ہونے پر قوم نے یہ توقعات وابستہ کیں کہ اب دہشت گردوں کی کمر توڑ کر‘ انکے تمام ٹھکانے تباہ کرکے اور انکے سرپرستوں اور سہولت کاروں پر سخت ہاتھ ڈال کر ملک کو دہشت گردی کے ناسور سے مستقل خلاصی دلا دی جائیگی۔ تاہم دو سال گزرنے کے باوجود اپریشن ضرب عضب قوم کی توقعات کے مطابق نتیجہ خیز نہیں ہوسکا اور آج بھی سفاک دہشت گرد دندناتے ہوئے ملک کے کسی نہ کسی حصے میں اپنے مشکل اہداف تک بھی پہنچ کر دہشت گردی کے ذریعے اپنے متعینہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں تو اسکی بنیادی وجہ نیشنل ایکشن پلان پر مو¿ثر عملدرآمد نہ ہونا ہے جس کی عسکری قیادتوں کی جانب سے بھی نشاندہی کی جاتی رہی ہے اور عدالت عظمیٰ کے علاوہ عدالت عالیہ لاہور میں بھی امن و امان سے متعلق مختلف مقدمات میں اپنے ریمارکس کے ذریعہ نشاندہی کرچکی ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے بنیادی نکات میں کالعدم تنظیموں کو اندرون اور بیرون ملک سے فراہم ہونیوالے فنڈز کو روکنا اور ان تنظیموں کی سکروٹنی کرکے انہیں نام بدل کر کام کرنے کی اجازت بھی نہ دینا شامل تھا۔ اسی طرح دہشت گردوں کے سرپرستوں اور سہولت کاروں پر بھی سخت ہاتھ ڈالنا نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس کیلئے بعدازاں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خاں نیشنل ایکشن پلان کی متعلقہ شقوں پر مو¿ثر عملدرآمد کے اقدامات کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں تاہم متعدد کالعدم تنظیمیں آج بھی سرگرم عمل ہیں اور سہولت کاروں پر قانون کا شکنجہ مسلسل ڈھیلا رہنے کے باعث سفاک دہشت گردوں کو سکیورٹی لیپس کا فائدہ اٹھانے اور دہشت گردی کے اپنے من پسند اہداف پورے کرنے کا موقع مل رہا ہے تو کہیں نہ کہیں ایسی کوتاہی ضرور ہوئی ہے جو نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پر انکی روح کے مطابق عملدرآمد کی راہ میں حائل ہے۔ چنانچہ کسی ریاستی ادارے یا عدلیہ کی جانب سے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے معاملہ میں ان کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی جاتی ہے تو وزارت داخلہ کو اس پر جزبز ہونے اور گرجنے برسنے کے بجائے متعلقہ تجاویز اور رپورٹوں کی روشنی میں اصلاح احوال کے مو¿ثر اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ اپریشن ضرب عضب کے ثمرات ضائع نہ ہونے پائیں۔
اگر چودھری نثارعلی خاں نے کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ پر اپنی سبکی محسوس کی اور پھر خفت مٹانے کیلئے لٹھ لے کر تحقیقاتی کمیشن کے پیچھے پڑ گئے جس کے بارے میں اپوزیشن اور قانونی و آئینی حلقوں کی رائے ہے کہ وزیر داخلہ سپریم کورٹ کے فاضل جج کی سربراہی میں قائم اس کمیشن کو کڑی اور بے جا تنقید کا نشانہ بنا کر توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں تو اب خود وفاقی وزارت داخلہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے سرزد ہونیوالی حکومتی کوتاہیوں کو کیوںتسلیم کررہی ہے۔ چودھری نثار علی خاں کو اب اپنی وزارت پر بھی لٹھ لے کر چڑھ دوڑنا چاہیے۔ یہ سطور لکھے جانے تک الیکٹرانک میڈیا پر یہ ٹیکرز چلنا شروع ہوگئے تھے کہ وزارت داخلہ نے اپنی ہی جاری کردہ اس رپورٹ سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ ممکن ہے وفاقی وزیر داخلہ کے دباﺅ پر وزارت داخلہ کے حکام کو اپنی ہی سالانہ رپورٹ سے لاتعلقی کا اظہار کرنے کی مجبوری لاحق ہوئی ہو کیونکہ اس رپورٹ سے وزیر داخلہ کی مزید سبکی کا اہتمام ہوا ہے تاہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے تلخ حقائق کا کھلے دل کے ساتھ سامنا اور نیشنل ایکشن پلان پر اسکی روح کے مطابق عملدرآمد کے معاملہ میں سرزد ہونیوالی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا چاہیے بصورت دیگر اصلاح احوال کی کبھی گنجائش نہیں نکل پائے گی۔ آج بھی وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی وزارت داخلہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر جُت جائے اور دہشت گردی کی جنگ میں کسی کیلئے بھی کوئی نرم گوشہ نہ رہنے دیا جائے ورنہ دہشت گرد اور انکے سہولت کار اپنے مکروہ ایجنڈے کے مطابق ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے میںکوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن