چیئرمین نیب کی پلی بارگین کی وکالت
پلی بارگین کا حتمی فیصلہ عدالت کرتی ہے، سزا کے تمام لوازمات لاگو ہوتے ہیں، ملزم صرف جیل نہیں جاتا، چیئرمین نیب۔
پلی بارگین مشرف کا دیا ہوا ”فلسفہ“ ہے۔ اس کی اس لئے مخالفت نہیں ہوتی کہ ایک آمر نے اس قانون کی تشکیل کی ہے بلکہ اس سے ایماندار ملازمین اور کاروباری لوگوں کی حوصلہ شکنی اور کرپٹ لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ قومی اثاثوں پر ہاتھ صاف کرنیوالوں سے ایک ایک پائی کی ریکوری کر کے ان کو جیل میں ڈالنا چاہیے۔ ایک شخص 6 ارب کی کرپشن کرتا ہے تو اس سے دو ارب وصول کر کے اس کی باقی کرپشن کی کمائی کو جائز قرار دیدیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے پلی بارگین پر پابندی عائد کی ہوئی ہے اس کے باوجود بلوچستان میں سابق سیکرٹری خزانہ کو یہ سہولت فراہم کر دی گئی۔ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے ایسے افسروں کو برطرف کرنے کا حکم دیا تھا جو پلی بارگین کے بعد بحال ہو گئے تھے۔ پلی بارگین انصاف کے تقاضوں کے قطعی منافی ہے۔ بجا کہ کچھ سکینڈلز میں متاثرین کو کوئی ریلیف نہیں مل سکا تاہم معاملات میں پلی بارگین سے متاثرین کو کچھ ادائیگیاں ہوئی ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مضاربہ کیس میں اگر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے تو پلی بارگین جیسے انصاف پر دھبہ بننے والے قانون کو نافذ العمل رکھا جائے۔ متاثرین کو ریلیف کیلئے اگر قانون میں کوئی سقم ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ پلی بارگین کی عوامی و سیاسی مخالفت ہو رہی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور عمران خان اس پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت پلی بارگین کے خاتمے کیلئے قانون سازی پر غور کرے۔