بدھ ‘ 28 ربیع الاوّل ‘ 1438ھ‘ 28 دسمبر 2016ء
انسانوں کو زندہ جلانے کا درس نہیں دیا: فاروق ستار‘ بھتہ خوری کا الزام غلط ہے: حماد صدیقی
چلیں مان لیتے ہیں آپ سچ ہی کہہ رہے ہونگے مگر یہ جو بوری بند لاشیں‘ ڈرلنگ والی مشینوں سے سوراخ شدہ جسم‘ تشدد سے مسخ شدہ چہروں والے بدن کراچی میں ملتے تھے‘ کیا وہ آپ کی ایم کیو ایم کی طرف سے تحفے نہیں ہوتے تھے مخالفین کیلئے۔ کیا آپ لوگ آج اس سے بھی انکار کرینگے۔ زندہ انسانوں کو آگ لگا کر مارنے کا حکم بھی انہی لوگوں نے دیا ہوگا جو پہلے بھی ایسی ہی وحشیانہ حرکتوں میں ملوث تھے۔ آپ سے زیادہ کون جانتا ہوگا مگر مصلحت کہیں یا خوف کہ لبوں کو سی رکھا ہے‘ اب اس تلخ حقیقت سے کون آنکھیں چرا سکتا ہے۔ فاروق ستار کا سہما ہوا لہجہ آج بھی بہت سی ان کہی داستانیں سنا رہا ہے۔ بقول شاعر ....
یہ کھلے کھلے سے گیسو یہ اُڑی اُڑی سی رنگت
تیری صبح کہہ رہی ہے تیری شام کا فسانہ
اب سانحہ بلدیہ ایک‘ دو یا تین افراد کی بات نہیں تھی‘ سینکڑوں افراد کی المناک ہلاکت کی داستان ہے۔ فیکٹری کو ظالموں نے اپنے آقا کے حکم پر جہنم کدہ بنا دیا تھا۔ کیوں یہاں سے ان درندوں کو منہ مانگا بھتہ نہیں مل رہا تھا۔اب کوئی حلف اٹھائے یا قسمیں کھائے مگر حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بھتہ وصول کرنے والے آج انکار کرکے یا پارسائی کا دعویٰ کرکے عوام کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ سچ سامنے آہی جاتا ہے۔ عمل اچھا ہو بُرا‘ اس کا حساب دینا ہی پڑتا ہے۔ یہاں سے بچ بھی نکلے تو آگے کی پکڑ سے کیسے بچیں گے۔
٭....٭....٭....٭
5 ہزار کے نوٹ کی بندش کا فیصلہ نہیں ہوا: ترجمان وزارت خزانہ
پاکستان میں رہنے والے ہمارے زر دار تو لگتا ہے کچھ زیادہ ہی ڈر گئے ہیں‘ باقی عوام تو ہندوستان میں بڑے نوٹوں کی بندش سے ہونے والی ہڑبونگ سے لطف اٹھا رہے ہیں کیونکہ ان کیلئے بڑے نوٹ کہاںہیں۔ ایسے میں منچلوں نے پاکستان میں بھی 5 ہزار کے نوٹ کی بندش کی ہوائی اڑائی تو بہت سے لوگوں کی تو رات کی نیندیں اڑ گئی ہونگی کیونکہ جتنا بڑا نوٹ ہوگا‘ پرس میں سمانے کی گنجائش زیادہ پیدا ہوگی۔ 5 ہزار والے 100 نوٹ بھی پرس میں ہوں تو ساری ٹینشن دور ہو جاتی ہے کیونکہ یہ تو ایک کونے میں سما جاتے ہیں۔ خاص طورپر لین دین میں تو یہ بڑے نوٹ خاصے کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ فائلوں میں یہی نوٹ ہی رکھ دیں پھر اسکی برق رفتاری دیکھیں۔ کتنی ہی بڑی فائل کیوں نہ ہو‘ چند نوٹ ہی اس کا پیٹ بھرنے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ اب اس کارآمد نوٹ کو کم از کم پاکستان میں بند کرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ خدا خدا کرکے یہ بڑا نوٹ بنوایا گیا تاکہ پیسے نظر بد سے محفوظ رہیں۔ اب ترجمان وزارت خزانہ نے لوٹ مار اور کرپشن کا شاہکار ہمارے معززین کو دلاسہ دیا ہے کہ وہ بے فکری سے لگے رہیں۔ فی الحال اس مقدس نوٹ کی واپسی یا خاتمہ کا کوئی پروگرام حکومت کے زیرغور نہیں۔ بھارت والے تو بے وقوف ہیں جو چھپا ہوا کالا دھن ظاہر کرانے کے چکر میں ایسے فیصلے کرکے اشرافیہ کو ذلیل کرتے ہیں۔ ہمیں ایسا کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ہم روپے پیسے کے معاملے میں ذرائع آمدنی سے زیادہ مقدر کا سکندر والے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔
٭....٭....٭....٭
شاہد آفریدی نے نئے مشاغل تلاش کر لئے
بوم بوم آجکل اپنے شوقیہ پیشے سے دوری کے بعد اپنے آبائی پیشہ پر توجہ دیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق موصوف آجکل اپنے آبائی علاقہ میں بھائیوں کے ہمراہ کاشتکاری کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا میں انکی گڑ بنانے والی مووی بھی کافی پاپولر ہو رہی ہے۔ زمیندارری بھی بڑا بابرکت پیشہ ہے۔ اب تو آفریدی بھی بڑے زمیندار بن چکے ہونگے۔ جدید آلات کاشتکاری اور طریقہ کاشتکاری کی بدولت تو یہ کام بھی بہت آسان ہو چکا ہے۔ بہت سے مزارع بھی شاہد آفریدی کے ساتھ کام کرنے میں خوشی محسوس کریں گے۔ کیا معلوم کچھ عقیدت مند مفت میں ہی آفریدی جی کی چاکری میں فخر محسوس کرنے کے چکروں میں ان کی زمینوں پر پانی بھرتے نظر آئیں یا ہل چلاتے دکھائی دیں۔ سنا ہے اسکے علاوہ آجکل وہ غلیل سے نشانہ بازی کی مشق بھی کر رہے ہیں۔ یہ تو سراسر ....
کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ
رہنے دو ظالم بناﺅ نہ دیوانہ
والی بات ہے۔ بوم بوم کے ایک نشانہ پر پاکستان اور انڈیا کے لاکھوں کرکٹ کے شائقین دل تھام کر رہ جاتے تھے۔ اب یہ چڑیاں‘کبوتر یا کوے ان کا نشانہ ہونگے۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں غلیل سے نشانہ بازی عام ہے مگر یاد رہے کرشن جی بھی تو اپنی غلیل سے ناریوں کی گاگریں پھوڑاکرتے تھے‘ کہیں شاہد جی بھی ایسی ہی کرشن لیلا نہ شروع کر دیں۔
٭....٭....٭....٭
سندھ میں نئے گورنر کی تقرری کا امکان
دیکھتے ہیں اب کے قرعہ فال کس کے نام نکلتا ہے۔ موجودہ گورنر کا ہم پلہ یا ہم پایہ تو شاید چراغ لیکر بھی ڈھونڈنے نکلیں تو کوئی نہ ملے گا۔ یہ عمر اور یہ عہدہ ہر ایک کی قسمت میں کہاں ....
”یہ بلند ملا جس کو مل گیا“
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
یہ عہدہ بھی تو اس وقت گورنر صاحب کیلئے گلے کی پھانس بن گیا ہے‘ جن چند فائلوں پر حکمرانوں نے دستخط کرانے تھے‘ وہ ان سے کرا لئے گئے ہونگے۔ اب ظاہر ہے گورنر ہاﺅس کا کام کاج سنبھالنے کیلئے اور دیگر امور کی انجام دہی کیلئے چاق و چوبند نہ سہی‘ چلتا پھرتا گورنر ضروری ہے اس لئے حکمران اب نئے چہرے کی تلاش میں ہیں۔ یار دوست تو سینیٹر مشاہد اللہ خان کا نام لے رہے ہیں۔ ہیں تو وہ بھی کافی عمر کے مگر انکے شعلہ فشاں بیانات سے لگتا ہے کہ ابھی آتش جواں ہے۔ وہ کسی بھی موقع پر حزب اختلاف کو دھوبی پٹڑا دینے سے گریز نہیں کرتے۔ حکمرانوں نے بھی ان کی یہی خوبی دیکھ کر شاید انہیں گورنر بنانے کا سوچا ہوگا۔ بہرحال جو بھی آئے‘ خدا کرے وہ صوبہ سندھ کیلئے اچھا ثابت ہو یا پھر کم از کم خود کام کاج کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہو۔