بلوچ طالبہ کا معصومانہ سوال
وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے دوسرے صوبوں کے طلبہ کو پنجاب کے دورے اور پنجاب یونیورسٹی میں دوسرے صوبوں کے طلبہ کو خاص کر بلوچستان کے طلبہ کی مفت تعلیم کے منصوبے سے بہت بلوچستان کے بہت سے طالب علم اور طالبات فیضیاب ہو رہے ہیں۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب کی طرف سے بلوچستان کے 10 طالب علموں کو چینی زبان سیکھنے کیلئے چین بھجوانے کے اعلان سے دوسرے صوبوں کے عوام اور خاص طور پر طالب علموں سے وزیراعلیٰ شہباز شریف کی محبت عیاں ہوتی ہے۔ بلوچستان کے طالب علموں کا ایک وفد بلوچستان سے لاہور آیا تو ان طلبہ سے بھی حسب روایت وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ملاقات کی سوال جواب ہوئے۔ اس تقریب میں ایک طالبہ نے وزیراعلیٰ پنجاب سے پوچھا کہ سی پیک تو بلوچستان کا منصوبہ ہے ساری ترقی لاہور میں کیوں ہو رہی ہے۔بے شک بلوچستان کی طالبہ نے بڑا چبھتا سوال کیا جو بظاہر ہر قوم پرست کے دل میں اُٹھتا ہے جب وہ لاہور آتا ہے۔ ملتان سے لیکر گھوٹکی تک اور وہاں سے سکھر پھر سبی سے مکران تک یہ سوال اکثر قوم پرستوں کے لبوں پر مچلتا ہے۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ اس معصوم طالبہ نے لاہور کا نام لیا باقی سب پنجاب کا نام لیتے ہیں۔ راقم کا اپنا تعلق بھی کوئٹہ سے ہے اسلئے وہ بہت سے حقائق سے آگاہ ہے۔ افسوس وزیراعلیٰ جواب نہ دے پائے۔ انکے پاس بیٹھے بڑے بڑے نامور صاحبان عقل و دانش میں سے کسی نے بھی پیار سے بچی کو سمجھانے کی کوشش نہیں کی کہ بیٹی سی پیک اس سال شروع ہونے والا منصوبہ ہے لاہور میں یہ ترقی گزشتہ کئی سالوں کی محنت کا ثمر ہے۔ یکدم سب کچھ نہیں ہوا۔ کبھی آپ میں سے کسی نے یہ سوال بلوچستان کے حکمرانوں سے کیا ہے کہ آپ سب نواب ہیں، سردار ہیں، جاگیردار ہیں، وڈیرے ہیں، خان ہیں، میر ہیں حکمرانی بھی کر رہے ہیں تو کیوں بلوچستان کی حالت نہیں بدلی؟ یہ تو ان کا اپنا صوبہ تھا اپنا گھر تھا۔ انہیں اسکی حالت بدلنے کا عوام کی قسمت بدلنے کا خیال کیوں نہیں آیا، کس نے ان کا ہاتھ روکا ہوا تھا۔ یہ سردار، نواب، خان اور میر تو اتنے دولت مند ہیں کہ یہ اپنی گرہ سے بھی اگر مال خرچ کریں تو پورا صوبہ گل وگلزار ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا کریں کیوں؟ بلوچستان کے نواب، میر، سردار اور خان پہلے کیا کم تھے صوبے کی دولت لوٹنے کیلئے کہ اب ملا بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ بلوچستان کی ہر حکومت میں مولوی حضرات بھی حصہ بقدر جثہ موجود ہوتے ہیں اور فنڈز پر ترقیاتی رقوم پر ہاتھ صاف کرتے ہوئے پیٹ پر ہاتھ مار کر ڈکار بھی لیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اور کچھ نہیں تو اپنے اپنے حلقوں میں سکول اور کالجوں کی حالت بہتر نہیں بنا سکتے تھے۔ اپنے علاقوں میں ہیلتھ مرکز اور فنی تعلیمی مراکز کھولنے سے کیا انہیں کسی نے روکا تھا۔ یہ تو حکومت میں ہوں یا نہ ہوں اپنے اپنے علاقوں کے مالک ہیں کس کی جرأت ہے کہ انہیں کوئی روک ٹوک سکے۔ 70 برس ہو گئے پاکستان بنے، یہاں انہی کا قانون چلتا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ پنجاب میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ یہاں بھی غربت ہے، بیروزگاری ہے، بیماریاں ہیں، تعلیم کی کمی ہے مگر کیا کبھی کسی پنجابی طالب علم نے یہ سوال اُٹھایا کہ بلوچستان کی آبادی اتنی ہے مگر وہاں فنڈز و ترقیاتی رقوم اتنے ارب کیوں دئیے جاتے ہیں اور وہ خرچ کہاں ہوتے ہیں؟ ان رقوم کا استعمال کہیں نظر کیوں نہیں آتا؟ صرف بڑا بھائی ہونے کی وجہ سے پنجاب کو لعن طعن کرنا قوم پرستوں نے وطیرہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ پنجاب میں بھی وزیراعلیٰ پنجاب ہر علاقہ پر توجہ دیتے ہیں مگر دیہی اور شہری فرق پھر بھی نمایاں ہے۔ اسکی وجہ مقامی سیاستدان وزیر اور سیاستدان ہیں۔سرائیکی علاقوں کے یہ نواب، جاگیردار پیر اور مخدوم اربوں روپے کے مالک ہیں۔ اتنی ہی رقم یہ فنڈز اور ترقیاتی رقوم کے حوالے سے ہر سال ہڑپ کر جاتے ہیں۔ وہاں کے عوام ان سے کبھی کیوں نہیں پوچھتے کہ جناب صرف آپ ہی دن بدن امیر کیوں ہو رہے ہیں ہمارے مقدر کیوں نہیں بدلتے! ہمیں تعلیم، صحت اور روزگار کیوں نہیں ملتا؟ یہی وڈیرے، جاگیردار اور نواب ارب پتی ہیں یہ تو اپنے پلے سے ہر گاؤں میں سکول اور طبی مراکز کھول سکتے ہیں مگر وہ ایسا کریں کیوں۔ یہی سب سے بڑی بیماری ہے جو عوام کا اور حکومت کے خزانوں کا خون چوسنے والی ان جونکوں کو لاحق ہے کہ اگر انہوں نے عوام کو سہولتیں دیں، تعلیم دی، صحت دی، روزگار دیا تو عوام خودسر ہو جائینگے۔ انہیں ہاتھ جوڑ کر سلام کون کریگا، انکی گالیاں کون سنے گا، انکے گناہوں پر پردہ کون ڈالے گا، انکی یہ جھوٹی شان و شوکت چوروں، ڈاکوؤں اور ٹھگوں کی بدولت قائم ہے وہ کہیں ختم نہ ہو جائے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں کے مسائل ایک جیسے ہی ہیں۔ سرمایہ دار، صنعتکار، چودھری، نواب، خان، وڈیرے، سردار، مولوی، پیر اور جاگیردا ریہ سب اپنی چودھراہٹ قائم رکھنے کے چکروں میں عوام کو زیرپا رکھنا چاہتے ہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ہر علاقے کے ایم این اے اور ایم پی اے کو جو بھی فنڈ دے، ترقیاتی رقم دے وہ سیاسی رشوت نہ ہو ہر سال اس کا آڈٹ کرایا جائے اور عوام کو بتایا جائے کہ کتنی رقم ملی، کتنی ان پر خرچ ہوئی۔ لاہور کے ڈیفنس، گلبرگ، ماڈل ٹاؤن یا پوش ایریا مال روڈ یا جیل روڈ کو دیکھنے والے کبھی حیات آباد، پشاور، ڈیفنس کراچی، شہباز ٹاؤن کوئٹہ کے ارب پتی مکینوں کے بنگلوں اور گاڑیوں پر بھی نظر ڈالیں تو احساس ہو گا کہ دولت کی یہ چہل پہل صرف اشرافیہ کے مقدر میں کیوں ہے؟ پنجاب کے حکمرانوں نے اگر لاہور پر توجہ دی ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ لاہور کے لوگ نقد بدلہ چکانے کے عادی ہیں اس لئے یہاں سو فیصد نہیں تو 30 فیصد کام کرنا سب کی مجبوری رہی ہے۔ اگر کوئٹہ، کراچی اور پشاور کے لوگ بھی یہی رویہ اپنائیں سرداروں کو سر سے اُتارنے کا ہنر بھی آزمائیں تو وہاں بھی 100 نہ سہی 30 روپے کا کام ہوتا نظر آئے گا۔