محترمہ بینظیر بھٹو عزم و ہمت کا استعارہ
محترمہ بینظیر بھٹوکا سیاسی سفر یوں تو 1986ء کے فقیدالمثال استقبال سے شروع ہوا لیکن دکھ اور آلام بھری سیاسی زندگی 1979ء سے شروع ہوئی جب انکے والد جناب ذوالفقار علی بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔جس کے بعد انہوں نے مکمل طور پر سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو اور مخدوم طالب المولیٰ کی سیاسی رفاقت میںکارکنوں کے ساتھ رابطہ استوار کیا اور اپنی پارٹی کو نئے سرے سے منظم کیانیز اپنے ساتھ نوجوانوں کو ملایا اور اسوقت کی استعماری اور استبدادی طاقتوں سے نبردآزما ہوئیں اگرچہ اسوقت یہ کام آسان نہیں تھا کیونکہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے مہیب سائے وطن کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھے۔ بقول شیخ سعدی ’’ سنگ بستہ و سگاں آزاد‘‘ والا معاملہ تھا۔ ضیاالحق کے مارشل لاء کے دوران نہ صرف سیاسی بلکہ ادبی اور تعمیری سرگرمیاں مفقود تھیں۔ شاعروں ادیبوںاور صحافیوں سمیت کوئی شعبہ زندگی ایسا نہیں تھا جس میں ظلم کے پہاڑ نہ توڑے گئے ہوں۔ ایسے میں محترمہ بینظیر بھٹو چین سے نہ بیٹھ سکیں اور جہدِ مسلسل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔اپنے والد کی پھانسی کارکنوں کی ننگی پیٹھوں پر برسنے والے کوڑے ‘ پھانسیاں اور جلا وطنیاں انکے عزم کو جلا بخشتی رہیں اور وہ آگے بڑھتی رہیں نیز زندگی میں پیش آنیوالا ہر زخم انکی آزادی اظہار رائے ‘ جمہوریت اور پسماندہ طبقے کیلئے آواز بلند کرنے پر آمادہ کرتا رہا۔بقول شاعر
مجھے وطن کے غریبوں کو ڈھانپنے کیلئے
قبائے خواجۂ اقلیم کی ضرورت ہے
وہ دن میں سولہ گھنٹے کام کرتیں اور چار گھنٹے اپنے ہموطنوں کے ساتھ ٹیلیفون پر بات کرتی تھیں۔محترمہ خود لکھتی ہیں کہ وہ انگلینڈ میں صبح نو بجے سے لیکر رات بارہ بجے تک کام کرتی تھیں جسمیں پندرہ منٹ کا وقفہ 5بجے تک اور5بجے سے8 بجے تک مسلسل کام ہوتا ۔ خودساختہ جِلاوطنی کے بعد وطن واپسی پر جیل میں ڈال دیا گیا۔وہ اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ کس طرح انہوں نے میرے والد کو جیل میں ڈالے رکھا جہاں وہ اکیلے تھے اور تا مرگ ان کو کسی قسم کی سہولت بھی میسر نہیں تھی لیکن جیل میں بھی ان کی ہمت اور حوصلہ پست نہیں ہوا۔ ایم آر ڈی ( موومنٹ فار دی ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی)کی تحریک شروع ہوئی تو محترمہ نے نوابزادہ نصراللہ خاں ‘ بیگم نصرت بھٹو اور دیگر ہم عصرقائدین کے ساتھ ملکر جدوجہد کی ۔مارچ 981ء کے PCOکیخلاف آواز اُٹھائی اگرچہ سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت ضیاء کے مارشل لاء کو درست قرار دیا۔محترمہ بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کا ماخذ محروم طبقوں کی آزادی ، جمہوریت کی بحالی ، ادب و ادیبوں اورصحافت و صحافیوں کی آزادی نیز ثقافتی سرگرمیوں کی بحالی تھا۔ جس کیلئے انہوں نے شبانہ روز محنت کی یہاں تک کہ اپنی صحت کی پروا ہ تک نہ کی جبکہ انکے ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ آپکے بائیں کان کی سماعت متاثر ہو رہی ہے اور آپکے چہرے پر فالج کا حملہ بھی ہو سکتا ہے صرف ایسی صورت میں محترمہ نے انگلینڈ جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہاں انکی جان کو خطرہ تھا۔جد و جہد کا یہ سلسلہ نہ رکنے کا نام لیتا نہ تھمنے کا بلکہ ہر صبح ایک نیا سندیسہ لاتی تھی اس طرح زندگی آگے بڑھتی رہی ، 1986ء کے ملک گیر دوروں پر نکلتی ہیں تو ایک نازک نحیف خاتون دن میں بیسیوں جگہ پر ٹرک روک کر عوام سے خطاب کرتی ہیں اور نعروں کا ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دیتی ہیں اور پھر بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرتی ہیں یہ کسی بھی خاتون لیڈر کیلئے سخت جانفشانی کا کام تھاجو انہوں نے بھر پور انداز میں انجام دیا ان جلسوں میں جہاں جہانگیربد ر مرحوم اور دیگرنے محترمہ کا بھرپور ساتھ دیا وہیں بھٹو دے نعرے وجن گے اور ڈاکٹر خالد جاوید جان کی نظم ’’باغی ‘‘نے بھی شہرت حاصل کی ۔
اس مسلسل جدوجہدکے سلسلے میں آمریت کے دن مختصر ہو ئے اور نئے انتخابات ہوئے یوں 1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اسلامی ممالک کی سب سے پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بنیںاور اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان تو ہو ئیںلیکن مکمل طور پر اقتدار منتقل نہ ہوابلکہ )2-58بی) کی تلوار لٹکتی رہی یہاں تک کہ اسی بد نام زمانہ آئینی شق نے 2سال بعد اقتدارکی بساط لپیٹ دی۔ استحصالی واستبدادی قوتوں نے محترمہ کے گرد آئی جے آئی بنا کر گھیرا تنگ کر نے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے۔یہ حقیقت ہے کہ محترمہ دو دفعہ اقتدار میں ضرور آئیں لیکن وہ اکیلی ان سازشوں اور ترکیبوں کا توڑ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ وہ خواب جو محروم اور پسے ہوئے طبقہ نے دیکھے تھے یا ان سے امید لگائی کماحقہ، پورے نہ ہو سکے۔ دوسرے اقتدار کے دوران محترمہ کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹودن دیہاڑے کراچی میں قتل کر دئیے جاتے ہیںجس پر محترمہ بہت بڑے صدمے سے دو چار ہو گئیں۔ تقدیر نے ایک بار پھر انکے سامنے مصائب و آلام کے پہاڑ کھڑے کر دئیے۔ جسکے کچھ عرصے بعد اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ محترمہ ایک مرتبہ پھر خود ساختہ جلا وطنی پر مجبور کر دی جاتی ہیں۔جلا وطنی کے دوران بھی کارکنان اور پاکستان میںپارٹی قیادت سے رابطے میں رہیں۔ مختلف عالمی سیمینارز میں لیکچرز دیتی رہیں۔ 11ستمبر کو امریکہ میں ٹوئن ٹاور کا واقعہ پیش آتا ہے تو محترمہ نے اسلام اور مغرب کے درمیان خلیج کو پاٹنے کیلئے مصالحت کی کوشش کی۔اور ایک کتاب لکھی جسکا نام ( Reconciliation Islam, Democracy and The West ) ہے۔
آٹھ سال جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے بعد اکتوبر 2007ء میں وطن واپس آتی ہیںتو کراچی ائر پورٹ پر لوگوں کا سمندر امڈ آتا ہے۔ محترمہ وطن واپس آکر نہایت خوش اور مطمئن نظر آرہی تھیںانکا کارواں انتہائی سست روی سے مزار قائد کی طرف بڑھ رہا تھا کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور لوگوں کی چیخ و پکار شروع ہو گئی اگرچہ محترمہ تو محفوظ رہیںلیکن 200 سے زائد کارکنان لقمۂ اجل بن گئے۔ دہشت گردوںکی بزدلانہ کاروائی محترمہ کے جذبہ کو شکست نہ دے سکی ۔ انہوں نے ملک کے طول و عرض میں دورے شروع کر دئیے یہ جانتے ہوئے بھی کہ انکی جان کو شدید خطرات ہیں لیکن اپنی جان کی پرواہ نہیں کی۔شائد انہی کیلئے حبیب جالب مرحوم نے لکھا تھا: ’’ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے‘‘۔بالآخر 27۔دسمبر 2007ء کی شام کو لیاقت باغ میں سورج کی سرخی کے غروب ہونے کے ساتھ انتہائی بزدلانہ کاروائی کرتے ہوئے دہشتگردوں نے ان کو ابدی نیند سلا دیااور وہ اپنے کارکنان سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گئیں۔ اللہ انکی لحد پر شبنم افشانی کرے۔
رونق جشن رنگ و بو کیلئے
زخم حاضر ہیں داغ حاضر ہیں