مقبول شاعر۔ مقبول اکیڈمی
برادرم سعید آسی نے گئے ہوئوں کو یاد کیا ہے۔ میں بھی اس یاد سے دل کا غمکدہ آباد کر رہا ہوں۔ بڑی بہن مرحومہ رفعت، بزرگ دوست انور قدوائی کے علاوہ بینظیر بھٹو میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کو یاد کر رہا ہوں۔ انہیں دنیا سے گئے ہوئے کچھ مدت ہو گئی ہے۔ مگر جانے والوں کے لئے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ انور قدوائی کی شفقت محبت سے بڑھ کر تھی۔ ایک بڑے اداکار دانشور برادرم شجاعت ہاشمی کے بیٹے کے ولیمے میں قبلہ سرفراز شاہ کی موجودگی میں انور قدوائی کی مسرور بے تابیاں دیکھنے والی تھیں۔ ایک باوقار اور محترم خاتون رفعت کو باجی کہہ کر سچے پن کی کیفیت محسوس ہوتی تھی۔ نوائے وقت سے ان کی وابستگی بے مثال تھی۔
منیر نیازی کو یاد کرتے ہوئے کئی دوست جب میرا نام بھی محبت سے لیتے ہیں تو میں سربلند ہو جاتا ہوں۔ منیر نیازی کو ہمیشہ یاد رکھنے والی باجی ناہید منیر نیازی بہت اچھی لگتی ہیں کہ پورے شہر میں شہر آشنا عظیم شاعر منیر نیازی کے لئے گھر پر باجی ناہید نے ایک زبردست اجتماع کیا۔ گھر کی بالائی منزل پر جہاں کبھی منیر نیازی نشست جماتے تھے۔ لگتا تھا کہ منیر نیازی کی خوشبو یہاں سب حاضرین سے بڑھ کر موجود ہے۔ انوکھی خوشبو جیسے شخص کے بکھرنے اور نکھرنے کے منظر اس ماحول میں زندہ ہو گئے تھے۔ شجاعت ہاشمی اور سعداللہ شاہ نے منیر نیازی کی شاعری سنائی
کل دیکھا اک آدمی اٹا سفر کی دھول میں
گم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھول میں
تھوڑی دیر میں آئی مگر صوفیہ بیدار آ گئی۔ مجھے یاد آیا کہ منیر خان سے آخری ملاقات میں نے اور صوفیہ نے گھر کے پچھلے صحن میں کی تھی۔ سرمئی سریلی سانولی شام کے خمار میں منیر نیازی ڈوبنے سے پہلے دوستدار سورج کی طرح لگ رہا تھا۔ منیر خان شاندار بڑھاپے کی خوبصورت دہلیز پر چہل قدمی کرتے ہوئے عقاب کی طرح بہت طاقتور اور مہربان بنا ہوا تھا۔ صوفیہ نے اور میں نے منیر خان سے بہت باتیں کیں۔ اب انہیں بیان کرنے کے لئے کئی گہری راتیں چاہئیں۔ اب تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ باتیں کس میگزین میں شائع ہوئی تھیں۔ میں نے اور صوفیہ نے کئی دفعہ ان باتوں کا مکالمہ ایک دوسرے کے ساتھ کیا۔
ہم سب منیر نیازی کو یاد کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے تھے مگر لگتا کہ انہیں یاد کرنے کے لئے تنہا ہونا ضروری ہے۔ یاد تو ہم منیر خان کو کر رہے تھے۔ جیسے ہر شخص اکیلا ہو گیا ہو۔ منیر خان کو تنہائی اور خاموشی بہت پسند تھی اور مجھے لگتا ہے کہ جو کچھ کسی کو ملا ہے وہ تنہائی سے ملا ہے اور خاموشی سے ملا ہے۔ محمد الرسول اللہؐ کو یاد کرنے والا جانتا تھا کہ غار حرا میں آپؐ کے پاس تنہائی تھی اور خاموشی تھی۔ آپؐ تنہائی کے احوال اور خاموشی کی زبان سے باخبر تھے۔ یہ منیر خان ہی تھے جن کی ایک کتاب کا انتساب ’’رسول کریمؐ کے نام‘‘ ہے۔
حضرت محمدﷺ سے انہیں اتنی محبت تھی جس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ اس بات کا راوی بے شمار شاعر سعداللہ شاہ ہے کہ وہ گوجرانوالہ کے ایک نعتیہ مشاعرے میں اس لئے نہ گئے کہ اس سے پہلے کسی نے انہیں شراب پلا دی تھی۔ منیر نے کہا کہ میں تو اپنی نعت کی طفیل حضورؐ کی حضوری میں ہوتا ہوں میں نشے کی حالت میں محفل نعت میں حاضر نہیں ہو سکتا وہ حاضری سے زیادہ حضوری کے قائل تھے۔
قرآن پاک کا بے پناہ مطالعہ انہوں نے کیا تھا اس کے بغیر ایسے اشعار کوئی کہہ نہیں سکتا۔ منیر خان کے اس شعر سے سورۃ العصر یاد آ جاتی ہے
یہ نماز عصر کا وقت ہے
یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی
بڑے بڑے شعرا اردو شعر و ادب کی تاریخ میں ہیں۔ مگر سب سے منفرد شاعر صرف منیر نیازی ہے۔ ان سے بڑا شاعر کسی کے خیال میں ہو تو ہو ان جیسا شاعر کوئی نہیں ہے۔
پورے شہر لاہور میں ایک یہی محفل تھی جو بیگم ناہید منیر نیازی کے گھر پر سجائی گئی تھی جہاں منیر نیازی بیٹھا کرتا تھا۔ اس کے پاس بیٹھ کر جس نے بھی اس کی شاعری سنی ہے وہ خوش قسمت آدمی ہے۔ ان کی آواز کی گھمبیرتا اور دبدبہ کبھی اس کی گونج کے جلال و جمال پر غالب نہ آ سکتا تھا۔ وہ آہستہ سروں میں بولتے تھے تو دلوں کے دروازے کھولتے تھے۔ ان کی سرگوشی کسی انوکھی خاموشی کے راز افشا کرتی تھی۔
وہ دیوتا کی طرح شاندار اور باوقار تھا۔ میری تو ان کے ساتھ کئی نسبتیں تھیں۔ ایک بار صوفیہ بیدار نے منیر خان سے کہا کہ ہمارے پاس بھی گاڑیاں ہیں مگر آپ صرف ڈاکٹر محمد اجمل نیازی کو بلاتے ہیں کہ وہ آپ کو کہیں لے کر جائے تو منیر نیازی نے کہا کہ وہ میرے قبیلے کا فرد ہے اور پھر میں اس کی موجودگی میں تحفظ محسوس کرتا ہوں۔ منیر نیازی کے یہ الفاظ میری کریڈیبلٹی کے لئے ایک سند ہیں۔ کوئی بھی مجھ پر آنکھ بند کرکے اعتماد کر سکتا ہے۔ منیر نیازی کی گواہی کے بعد کسی کو کیا ثبوت چاہئے؟
سرگودھا سے ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم ایک ممتاز محقق مرتب اور مصنف ہے کہ ہر شہر کی نمائندگی کے لئے ایسا محنتی اور اہل آدمی ہونا چاہئے۔ ہارون تو اہل دل بھی ہے۔ اس کی تازہ کتاب جو مجھے ملی ہے۔ اس کا نام ’’125۔ اہل قلم‘‘ ہے۔ بہت معتبر اور دردمند ادیب پبلشر ملک مقبول احمد نے بہت شاندار اور قابل اعتبار مقبول اکیڈمی کے زیر اہتمام شائع کی ہے۔ تقریباً پونے سات سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب بہت اہم اور اچھی ہے۔ ولی دکنی سے لے کر پروین شاکر تک شعرائے کرام شامل ہیں۔ یہ کتاب اتنی خوبصورت ہے کہ میں نے خواہش کی کہ میرا نام بھی اس فہرست میں شامل ہوتا۔ یہ کتاب سکولوں کالجوں مقابلہ کے امتحانات اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کے لئے یکساں کارآمد ہے۔ آخری جملہ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کا ہے اور میں اس کی تائید کرتا ہوں۔ ایک کتاب ان کے اپنے فن و شخصیت پر ہے جو ذوالفقار احسن نے لکھی ہے۔ ہارون نے ایک زبردست کتاب ملک مقبول۔ ایک مطالبہ بھی ’’دانش صد رنگ‘‘ کے نام سے لکھی ہے جو ایک اہم کتاب ہے۔ ملک صاحب کے لئے ایک اہم کتاب ’’کندن چہرے‘‘ ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم نے ملک صاحب کی خاکہ نگاری کے حوالے سے تحریر کی ہے۔ ملک صاحب کی ادبی خدمات کے حوالے سے ’’حق شناس‘‘ کے نام سے یاسمین شوکت اور سادیدہ محبوب نے بھی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ وہ ان نامور پبلشرز میں سے ہیں جو اہل قلم بھی ہیں خود بھی کتابیں لکھ چکے ہیں اور ان کے بارے میں بھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کی خود نوشت ’’سفر جاری ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ خود نوشت سوانح عمریوں میں یہ ایک اہم کتاب ہے۔