راجہ پرویز اشرف نے کس منہ سے فوجی عدالتوں کی حمایت کر دی
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر سنیٹرپروفیسر ساجد میر نے باور کرایا ہے کہ فوجی عدالتیں ہمارے مسئلے کا مو¿ثر اور حقیقی حل نہیں ۔ ملک کے مروجہ عدالتی نظام کو مضبوط اور بہتر بنایا جائے جبکہ سابق وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما راجہ پرویز اشرف نے جب تک ضرورت ہے ، فوجی عدالتوں کو قائم رکھنے کی بات کی ہے ۔
دسمبر 2014ءمیں آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی کے المناک سانحے کے بعد آئین اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے جنوری 2015ءمیں دہشت گردی سے متعلقہ جرائم میں ملوث سویلین افراد کو سزائیں دلانے کیلئے ملک میں دو سال کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا تھاجس پر چیئر مین سینٹ نے پاکستان کے خصوصی حالات میں ایک ناگزیر ضرورت اور کڑوا گھونٹ سمجھ کر صاد کیا ۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے وقت حکومت نے عندیہ دیا تھا کہ دو سال کے دوران مروجہ عدالتی نظام میں ضروری اصلاحات کر کے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کی کارکردگی میں بہتری لے آئے گی۔ راجہ پرویز اشرف وزیراعظم کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز رہے۔ ان کی طرف سے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی حمایت افسوسناک ہے۔ جبکہ ساجد میر کا موقف درست اور جمہوری ہے۔ ان عدالتوں میں بہتری آئی یا نہیں۔ اس بحث میں پڑے بغیر یہ حقیقت ہے کہ اب حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ اب فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں رہی۔ فوجی عدالتوں کا قیام در حقیقت ملک میں متوازی عدالتی نظام لانے کے مترادف ہے ماضی میں ان کی تشکیل آئینی ، قانونی حلقوں اور عام پبلک حلقوں میں بھی تنقید کی زد میں رہی ہے ۔ فوجی عدالتیں بجا طور پر ہمارے مسئلے کا مو¿ثر اور حقیقی حل نہیں ۔ مروجہ عدالتی نظام میں بہتری لانے کی تدبیر کی جائے ۔ عام عدالتوں کو تحفظ دے کر اور مطلوبہ سہولتیں فراہم کر کے انصاف کا بول بالا کیا جا سکتا ہے ۔