علم کی دہلیز پر
حضرت کمیل بن زیاد بیان فرماتے ہیں، کہ امیر المومنین حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے میرا ہاتھ پکڑا اور صحرا کی طرف چلنا شروع کر دیا، وہاں پہنچ کر آپ ایک جگہ تشریف فرما ہو گئے، آپ نے ایک لمبا سانس لیا اور ارشاد فرمایا: اے کمیل بن زیاد! دل بھی ایک ظرف ہے، اور ان میں بہترین ظرف وہ ہے جو زیادہ علم محفوظ رکھنے والا ہو۔ میں تمہیں جو بات بتا رہا ہوں اسے ازبر رکھنا۔ انسان تین قسم کے ہیں: ایک عالم ربانی، دوسرا وہ طالب علم جو نجات کے راستے پر چل رہا ہے تیسرے وہ مَہین اور خسیس لوگ جو ہر شور مچانےوالے کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور جدھر کی ہوا دیکھتے ہیں اُدھر ہی کو رُخ کر لیتے ہیں، انہوں نے نہ تو علم کے نور ہی سے کوئی روشنی حاصل کی اور نہ کسی مضبوط مددگار کی پناہ حاصل کی۔
علم مال سے بہتر ہے، علم تمہاری حفاظت کرتا ہے جب کہ مال کی حفاظت تمہیں کرنی پڑتی ہے، علم عمل کرنے سے بڑھتا ہے اور مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے۔ عالم (ربانی) کی محبت دین ہے، جس کا اللہ کے ہاں بدلہ ملے گا، علم (علم نافع) کی وجہ سے عالم کی زندگی میں اسکی بات تسلیم کی جاتی ہے اور وصال کے بعد اس کی تکریم کی جاتی ہے، جب مال ضائع ہوجاتا ہے تو زر کے کرشمے اور اسکی اساس پر چلنے والے کام بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ مال کے خزانے جمع کرنےوالے زندہ بھی ہوں تو وہ (اہل نظر کے نزدیک) مردہ شمار ہوتے ہیں اور علماء(دنیا سے جانے کے بعد بھی) زمانے کی حیات تک زندہ رہینگے، انکے جسم تو دنیا سے رحلت کر جائینگے لیکن انکی عظمت کے نقوش دلوں میں قرار پذیر رہینگے۔
آپ نے اپنے سینے کیطرف اشارہ کیا اور فرمایا: غور سے سنو! اس جگہ ایک قوی علم ہے، کاش اس علم کو اٹھانےوالے مجھے میسر آجاتے، اب یا تو ایسے لوگ ملتے ہیں جنکا دماغ تو تیز ہے لیکن انکے دلوں میں تقویٰ و اطمینان نہیں، یہ دین کے اسباب کو دنیا کےلئے بروئے کار لاتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جو دلائل قائم کئے ہیں ان سے قرآن ہی کےخلاف ثابت کرتے ہیں اور اللہ رب العزت کی عطا کردہ نعمتوں کو اسکے بندوں کے نقصان کےلئے استعمال کرتے ہیں یا پھر ایسے لوگ ملتے ہیں جو اہل حق کے فرماں بردار تو ہیں لیکن انہیں احیاءدین کا کوئی فہم اور شعور نہیں ہے۔ معمولی سا شبہ پیش آتے ہی انکے دل میں شک پیدا ہو جاتا ہے اور یہ تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر ایسے لوگ ملتے ہیں جو لذتوں میں گرفتار ہیں اور آسانی سے خواہش نفس کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر ایسے لوگ ملتے ہیں جو (علم کے ذریعے) مال جمع کرنے اور اسے ذخیرہ کرنےکا جذبہ رکھتے ہیں اور یہ آخری دو قسم کے انسان دین کے داعی بھی نہیں ہیں۔ (کنزالعمال)