• news
  • image

رضا ربانی کی اینٹی کرپشن تجاویز کا محبت نامہ!

ارے ! کرپشن بچوں کا کھیل نہیں اشرافیہ کا کھلونا ہے۔ یہ محکوم کرے تو مجرم اور حاکم کرے تو صاحبِ کمال۔ خادم کرے تو گنوار اور مخدوم کرے تو فنکار۔ رعایا کرے تو فنا اور بادشاہ کرے تو جہاں پنا۔ آہ! اس نگوڑی کرپشن کی تیرگی میرے کھاتے ہیں ہو تو نامہ¿ سیاہ اور ”ان“ کی زلف میں ہو تو حُسن کہلائے۔ گویا کرپشن کے آرٹ سے ناآشنا عوام کہلائیں یا عام کہلوائے اور اس سے آشنا ٹیکنوکریٹ یا بیوروکریٹ یا پھر حکمران و مہربان کا اعزاز پائے

مٹاتے ہیں جو وہ ہم کو تو اپنا کام کرتے ہیں
مجھے حیرت تو ان پر ہے جو اس مٹنے پہ مرتے ہیں
کرپشن کی داستانیں بھی حُسن و عشق کی داستانیں ہیں۔ یہاں کوئی فرہاد کے تیشہ پکڑنے پر فدا ہے اور کوئی زلف دراز کا اسیر ہے۔ نہ‘ نہ! غلطی ہو گئی حُسن و عشق کا سا خشوع و خضوع تو کرپشن میں ہو سکتا ہے لیکن حُسن و عشق نہیں۔ حُسن و عشق تو بندگی ہے اور کرپشن حرص و ہوس کی درندگی۔ کاش کرپشن کی کوڑھ کی کاشت سے کوئی قوم کو بچانے والا مسیحا آ جائے۔ کیا کبھی کوئی جناح لوٹ آئے گا؟ قوم کے شبانہ روز اس کرپشن کی وجہ سے مچلتے رہتے ہیں لیکن صاحبان اقتدار اور صاحبان اختیار کو ذرا بھی خیال نہیں۔ عجب بات ہے کہ شیشے کے گھر میں رہنے والا اشرافیہ دل پتھر کا رکھتا ہے۔ قوم کو صدقہ و زکوٰة کے برابر بھی تعلیمی سہولتیں‘ صحت کا خیال اور فراہمی¿ انصاف دے دے تو قوم کے دن رات سنور جائیں.... اگر نہ سنوریں تو:
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں مانتا
ستم تو یہ ہے کہ ظالم سخن شناس نہیں۔ ورنہ 1973ءکے آئین میں ایوان زیریں سے ایوان بالا تک‘ وفاقی وزیر سے وزیر مملکت تک‘ پارلیمانی سیکرٹری سے سٹینڈنگ اور پارلیمانی کمیٹیوں کے سربراہان اور چیئرمین حضرات تک حقوق سے الفت کا رشتہ اور فرائض سے نفرت کی تعلق داری رکھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ فرض شناسی اور عقل و دانش کو بروئے کار لائیں تو کیا کرپشن اور کیا کرپشن پر بحث و تمحیص‘ سبھی ختم ہو جائیں۔ بہرحال سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی جو سیاست اور آئین کی فہم و فراست میں ایک قابل قدر قد کاٹھ رکھتے ہیں۔ انہوں نے عوام کے نام ایک محبت نامہ تحریر کیا ہے جس میں میڈیا کو بطور قاصد استعمال کیا گیا۔ پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی تمام سیاسی حلقوں کے لئے قابل قبول شخصیت ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں جس منصب پر ہوں اس پر قوم کے نام کھلا خط گو معمول کا عمل نہیں تاہم میں نے یہ عہدہ اور پارٹی تعلق داری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ خط عوام کے نام کیا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ خط حال ہی میں بلوچستان میں نیب اور بیوروکریٹ مشتاق رئیسانی کے مابین ہونے والی بارگیننگ کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ کسی دانشور نے اس بارگیننگ پر کیا خوب لکھا کہ میرے ایک دوست کا فون آیا کہ مجھے نیب نے بھینس چوری میں دھر لیا ہے۔ جب میں نیب آفس گیا تو میرا دوست چوری شدہ بھینس پر بیٹھ کر باہر نکل رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیسے نکلے ہو۔ اس نے کہا میں نے پلی بارگیننگ کی ہے۔ گوبر نیب کے حصے میں آیا ہے اور بھینس میرے حصے۔ اندازہ کریں اشرافیہ کوئی سرے محل والا ہو یا پانامہ لیکس والا یا جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا نہیں پکڑا جاتا۔ پکڑا جاتا ہے تو غریب کا بال جو چار لقمے چوری کرتا ہے یا آدھی روئی۔ اس اشرافیہ کی اقسام بھی میاں رضا ربانی نے اپنے محبت نامے میں لکھی ہیں۔ یعنی وہ جو خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اور ان کے لئے احتسابی عمل بھی مخصوص ہیں: (1) حکمران اشرافیہ (2) ریگولر اشرافیہ (3) سویلین اشرافیہ (4) اشرافیہ کے ساتھی (5) طاقت مارکہ اشرافیہ وہ طبقات ہیں جو ”اشرف المخلوقات“ ہیں اور چھٹی قسم غیر اشرافیہ ہے جو عوام ہیں‘ اور ان کے لئے ہر سمت میں بند گلی ہے۔
چھ طبقوں کی نشاندہی اور انسداد بدعنوانی پر مشتمل ربانی محبت نامہ چھ صفحات پر مشتمل تھا۔ ان کی تجویز ہے کہ 12 ممبران پر مشتمل ایک فیڈرل کمشن برائے احتساب تشکیل دیا جائے۔ یہ فیڈرل کمشن فار اکا¶نٹیبلٹی (FCA) اس قدر طاقتور ہو کہ‘ نیشنل اکا¶نٹیبلٹی بیورو (NAB) سے بھی حساب کتاب اور احتساب لے سکے۔ واضح رہے کہ اس وقت چھ ایجنسیاں ایسی ہیں جو انسداد بدعنوانی کے لئے اپنی تمام تر تساہل پسندیوں کے ساتھ ”سرگرم عمل“ ہیں۔ ان میں سے 2 کا تعلق مرکز سے اور 4 کا تعلق صوبوں سے ہے۔ علاوہ بریں دو عدالتیں ہیں جن میں سے ایک احتساب عدالتیں اور دوسری صوبائی سطح پر سپیشل اینٹی کرپشن کورٹس ہیں۔ ربانی تجویز کے مطابق نیب بحیثیت خودمختار ادارہ کام کرے لیکن وہ FCA کو جوابدہ بھی ہو اور اس کی رہنمائی میں امور نمٹائے جبکہ کورٹس براہ راست سپریم کورٹ کے زیرانتظام ہوں۔
کوئی مسٹر ربانی سے اتفاق کرے نہ کرے لیکن اس سے اتفاق ضرور کرے گا کہ چھوٹی موٹی تبدیلیوں اور ترامیم سے کرپشن کو روکنا ممکن نہیں۔ اشرافیہ کا طریقہ کار اس قدر انجینئرڈ ہے اور اوپر سے صاحبان ثروت اور طاقتوروں کے پاس اتنے کلئے اور فارمولے ہیں کہ موجودہ انسداد بدعنوانی کا نظام ان کے راستے کی دیوار بننے سے قاصر ہے۔ پس ضرورت اس امر کی ہے کہ نظام کا ازسرنو جائزہ لے کر ایک جامع اور ٹھوس طریقہ کار وضع کیا جائے۔ نیب نظام کے حوالے سے تو پچھلے دنوں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بھی مکمل عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور تجویز دی ہے کہ نیب کا سربراہ عدلیہ سے ہونا چاہئے۔ ربانی تجاویز کے مطابق 12 ممبران پر مشتمل اس کمشن کی مدت 3 سال ہونی چاہئے۔ 2 ممبران قومی اسمبلی‘ 2 ممبران سینٹ سے ہوں جن میں ایک ایک حکومتی نمائندہ اور ایک ایک اپوزیشن کے نمائندگان ہوں۔ ایک ممبر سپریم کورٹ کا حاضر سروس جسٹس ہو جس کی منظوری چیف جسٹس آف سپریم کورٹ دیں۔ اسی طرح ایک ممبر لیفٹیننٹ جنرل لیول کا حاضر سروس ہو جس کی منظوری جوائنٹ چیفس آف سٹاف دے۔ سول سروسز کا نمائندہ 22 ویں گریڈ کاآفیسر ہونا چاہئے۔ سول آرمڈ فورسز اور پولیس کا ایک نمائندہ بھی FCA کا ممبر ہو۔ بار ایسوسی ایشنز کا ایک نمائندہ۔ ایک نمائندہ جرنلسٹس کا۔ ایک نمائندہ پروفیشنلز کا بھی ہو۔ اور فیڈرل کمشن برائے احتساب کے تمام ممبران 3 سال کے لئے اپنا چیئرمین منتخب کریں۔ اس کے لئے یقیناً نیب آرڈیننس اور ایف آئی اے ایکٹ 1974ءمیں ترامیم لانی پڑیں گی اور ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جو اس FCA بل پر کام کرے۔ ان کے خیال میں پہلے وہ تمام ادارے جو آرمڈ فورسز یا دیگر کے لئے کام کرتے ہیں‘ وہ رہیں اور چھان بین وہ کریں تاہم آخری فیصلہ FCA کا ہو.... کاش یہ سب ہو جائے۔ کاش یہ سب ہو جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسا ہو جائے۔
ان سب تجاویز اور باتوں کو دیکھ کر دل میں یہ بھی خیال آتا ہے کہ اشرافیہ ایسا کیوں کرنے دے گا؟ طاقتور طبقہ اپنا گریبان اور ہاتھوں میں کیوں پکڑائے گا؟ نظریہ ضرورت کے فلسفے کو کیوں مرنے دیں گے۔ یہ طاقتور لوگ؟ کرپشن سے ملک کی جڑیں کھوکھلی ضرور ہو رہی ہیں لیکن اشرافیہ تو اب گلوبل ویلج میں رہتا ہے وہ اپنے قدم جب برطانیہ سے امریکہ تک جما چکا ہے‘ تو پیڑ گننے کی کیا ضرورت وہ تو پھل کھائے گا۔ ہمارے ہاں پکا رواج ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ جہاں جمہوریت ہم طاقتور کو مزید طاقتور کرنے کو کہتے ہوں اور جہاں چیئرمین اور میئر کے لئے وزراءاور حکمرانوں کے ساتھیوں ہی نے آگے آنا ہو۔ اور اوپر سے ہم کہیں عوام کی حکومت عوام کے دم سے اور عوام کے لئے۔ یہ گھنا¶نا جرم اور سنگین مذاق نہیں تو کیا ہے؟ اگر کوئی کمشن حاضر وقت وزیر داخلہ میں نقص نکال دے تو وہ میڈیا میں آ کر مستعفی ہونے کے بجائے عدلیہ کو سیدھی سیدھی سنانا شروع کر دے تو واقعی پہلی 5 قسمیں اشرافیہ کی طاقتور ہیں عوام بے چارے چھٹی کیٹگری میں آتے ہیں۔ جس ریاست‘ علاقے یا ملک میں حکومتی پروپیگنڈے بہت منظم اور بڑے مربوط ہوں سمجھ لیں وہاں عام آدمی انتہائی بے بس ہوتا ہے اور جہاں جمہوریت انجینئرڈ ہو وہاں کسی بھی قسم کا کمشن بنا لیں بھینس اسی کی رہتی ہے جس کی لاٹھی ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ امریکہ کی چودھراہٹ پوری بین الاقوامی برادری میں کیوں ہے۔
وجہ یہ کہ امریکہ داخلی اعتبار سے بہترین جمہوریت ہے‘ وہاں عام آدمی کے لئے انصاف ہے اور آزادی¿ رائے ہے گویا جمہوری امریکہ خارجی طور پر ڈکٹیٹر ہے‘ اپنی منواتا ہے‘ عالمی عدالت بھی اس کی امیونٹی مانتی ہے‘ اقوام متحدہ اس کی پاور کو تسلیم کرتی ہے اور پورے عالم میں من مانی کرتا ہے‘ لیکن اس کا اشرافیہ اندرون ملک من مانی نہیں کرتا ہے۔ وہ اندرونی مضبوطی کے سبب بیرونی طاقت کا حامل ہے۔ اگر امریکہ کے اندر کرپشن ہوتی تو وہ باہر مضبوط نہ ہوتا۔ کاش کوئی حکمران یہاں 5 منٹ کسی عام ووٹر سے بحث کر کے دیکھے تو اسے جمہوریت کا حساب اور جواب مل جائے گا اور کرپشن کا بھی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن