گوادر کی حکایت دل نواز
سی پیک ہمارے حواس پر طاری ہے۔ اومان سے جاوید نواز کے آنے کی خبر ملی تو جھٹ ان سے ملاقات کی ٹھانی۔ خواہش یہ تھی کہ گوادر کی ترقی وتعمیر اور سی پیک کی پیش رفت پر اومان میں کیا رائے پائی جاتی ہے، اومان ا ور گوادر پڑوسی ہیں، خشکی کے نہیں مگر بحری راستے سے بلکہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، گوادر ایک وقت تک تو اومان کا ہی حصہ تھا مگر پھر پاکستان کے ایک وزیر اعظم فیروز خان نون نے اسے دو بلین ڈالر دے کر خرید لیا۔
جاوید نواز نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ گوادر کبھی بلوچستان کا حصہ نہیں تھا، یہ ایک وفاقی علاقہ تھا اور اس کی یہ حیثیت برقرار رہنی چاہیے تھی۔اگر ایساہو جاتا تو بلوچستان کو اس پر سیاست کرنے کا موقع نہ ملتا۔
اومان میں ایساکوئی تاسف نہیںپایا جاتا کہ اے کاش! ہم نے یہ بندر گاہ پاکستان کو نہ دی ہوتی تاکہ اسکے فوائد سے اومان ہی بہرہ مند ہوتا، جاوید نوا زنے کہا کہ آپ سمجھ لیجئے کہ اومان میں یہ مسئلہ کسی سطح پر زیر بحث ہی نہیں ہے۔اس لئے نہیں ہے کہ سی پیک کو ستاون بلین کے چینی قرضے سے بنایا جا رہا ہے جبکہ اومان میں دکم کے علاقے میں چین نے اٹھائیس بلین کی سرمایہ کاری سے ایک صنعتی اور کاروباری زون تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔کہاں پاکستانی قوم ارب ہا ڈالر کی مقروض ہو رہی ہے، اس قرضے سے سامان بھی چین سے خرید اجائے گا، اور چینی کمپنیاں ہی ا س سامان کو کام میں لا کر منصوبے پروان چڑھائیں گی، پاکستانی قوم تو قرضوں کے جنجال میںپھنسی رہے گی مگر اومان میں اٹھائیس ارب ڈالر کی براہ راست چینی سرمایہ کاری ہو رہی ہے، اس کا کوئی بوجھ اومانی قوم پر نہیں پڑے گا۔جاوید نواز نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ گوادر اور دکم میں اشتراک عمل پیدا کیا جائے تاکہ اومان میں چینی مصنوعات کی تجارت گوادر کی بندر گاہ سے ہو۔جاوید نواز کی یہ رائے سن کر ایک اومانی عہدیدار نے انہیں طعنہ دیا کہ آپ پچیس برس سے ا ومان میں رہ رہے ہیں مگر دل آپ کا پاکستان میں اٹکا ہوا ہے۔
اومان میں لا اینڈا ٓرڈر کی صورت حال کیسی ہے، اس سوال کے جواب میں جاوید نوا زنے کہا کہ ایک بار ایس ایم ظفر وکلا کے وفد کے ساتھ اومان گئے، کچھ دیر گھومنے کے بعد انہوں نے پوچھا کہ کیایہاں پولیس نہیں ہوتی، انہیں جواب ملا کہ پولیس موجود ہے مگر اس طرح ظاہر نہیں جیسے پاکستان میں ہر جگہ نمایاںنظرا ٓتی ہے۔جاوید نوازنے کہا کہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاکستان سے پہلے صحافی کے طور پر پاک چین دوستی والے ممتاز احمد خان نے دورہ کیا، اس زمانے میں پورے ا ومان میں صرف نو کلومیڑ کی ایک پختہ سڑک موجود تھی۔ایک شاندار عمارت کو دیکھ کر انہوں نے اپنے گائیڈ سے پوچھا کہ کیاا س میں آپ کا بادشاہ رہتا ہے، جواب ملا نہیں، یہ امریکی سفیر کی رہائش گاہ ہے،اس کے ساتھ والے سادہ سے گھر میں سلطان رہتا ہے۔
اومان کے بارے میںمزید جاننے کی خواہش پیدا ہوئی، میںنے پوچھا کہ یہ روایتی طور پر ایک غیر جانبدار مسلم ملک کا تشخص رکھتا ہے ، مگر اب اس نے سعودی دفاعی اتحاد میں شمولیت کیسے اختیار کر لی۔ جاوید نواز نے کہا کہ یہ درست ہے کہ تاریخی طور پر اومان ایک غیر جانبدار ملک ہے، ایران عراق جنگ میں اسنے کسی کا ساتھ نہ دیا، اب جسے آپ سعودی اتحاد کہتے ہیں اصل میں یہ دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کا اتحاد ہے اور اومان کی کوشش ہو گی کہ اسلامی ممالک کے باہمی تنازعات کو مذاکرات سے حل کیا جائے اور یہ کشکمکش کا باعث نہ بنیں۔
اومان کی ترقی میں بنیادی کردار کس فیکٹر کا ہے۔
جواب تھا کہ تیل کی فاضل آمدنی کا ایک حصہ خصوصی ترقیاتی فنڈ کے لئے مختص کر دیا گیا ، اس طرح یہ قوم عیش وعشرت میںنہیں پڑی اور اب اس فنڈ میںکھربوں ڈالر جمع ہو چکے ہیں جس سے دنیا بھر میں سرمایہ کاری کی جارہی ہے اور اس کی ا ٓمدنی فلاحی پروگراموں پر خرچ کی جاتی ہے۔
مذہبی ہم آہنگی کی کیفیت کا ہے۔
اومان میں فرقہ واریت کا نام و نشان بھی نہیں،اذان اور نماز کا ایک وقت مقرر ہے، جمعہ کی نماز بھی ایک ہی وقت میںادا کی جاتی ہے، جمعہ کا خطبہ ایسے ا سکالر لکھتے ہیں جو ہارورڈ اور آکسفور ڈ کے تعلیم یافتہ ہیں ، انہیں مفتی اعظم چیک کرتے ہیں اور پھر سا رے ملک میںپچیس منٹ پر محیط یہ خطبہ ہر مسجد میں بیک وقت پڑھا جاتا ہے۔
حکومت کا نظام کیا ہے۔
مکمل طور پر شورائی یا جمہوری نظام ہے، سلطان کے انتخاب کے لئے تمام قبائل کے سربراہ جنہیں مفتی کامنصب بھی حاصل ہے، ووٹ کے ذریعے نئے سلطان کا انتخاب کرتے ہیں۔مملکت کے تمام فیصلے شوری میں کئے جاتے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں اومان میں کوئی خاص رائے؟
جاوید نواز نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہنے لگے کہ ایک روز انہیں کسی نے بتایا کہ کیا پاکستان سو رہا ہے۔یہ دیکھیں اومان کا نقشہ اور امریکی فوج بالکل پاکستانی ساحل کے سامنے ایک اڈہ تعمیر کر رہی ہے۔یہ پاکستان سپیسیفک ہے، ا سکے علاوہ اس کا کوئی استعمال اور ہے نہیں،پاکستان کواس کے بارے میں آواز بلند کرنی چاہئے۔مگر لطیفے کی بات یہ ہے پاکستان پہلے ہی اومان سے تعلقات خراب کرچکا ہے، خراب نہ بھی کہیں تو دو طرفہ تعلقات میں سرد مہری کی کیفیت ہے۔ ہوا یوں کہ محترمہ بے نظر بھٹو اومان کے دورے پر گئیں تو سلطان نے انہیں ایک قیمتی ہار تحفے میں دیا، اسی طرح کا یک ہار وہ لیڈی ڈیانا اور یاسر عرفات کی بیوی کو بھی پیش کر چکے تھے۔ محترمہ بے نظیر نے جواب میں خیر سگالی کے طور پر سلطان کو ان کے والد کا ایک قلعہ تحفے میں دیا جوگوادر کے علاقے میں تھا مگر اب اسے پاکستان خرید چکا تھا، محترمہ نے یہ گفٹ کیا دیا کہ پاکستان میں ایک شور مچ گیا کہ اسرائیل کو زمین بیچ دی گئی ہے اور یہاں اب پاکستان دشمن ا ڈہ بن جائے گا، اس الزام کی قاضی حسین احمد نے بھی تائید کی ، انہیں جاوید نواز نے فون کر کے حقیقت حال بتائی مگر قاضی صاحب اس قدر پروپیگنڈے سے متاثر تھے کہ انہوںنے جاوید نواز کا موقف قبول نہ کیا ، بہر حال ا س شور شرابے میں محترمہ نے گفٹ کا فیصلہ واپس لے لیا مگر اس سے سلطان کو دلی رنج پہنچا۔ وہ دن اور آج کا دن، دونوں ہمسایوںکے دل ایک نہیں ہو سکے۔
اس پس منظر میں سی پیک میں اومان کی شمولیت کی بات بھی نہیں کی جاتی، اومان اپنی جگہ پر بے حد مطمئن ہے کہ پاکستان تو اربوں کے قرض میں پھنس رہا ہے جبکہ اومان اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے میںکامیاب ہو گیا ہے۔
جاوید نواز نے بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور اومان کے تعلقات اس قدر بھی کشیدہ نہیں کہ پاکستانیوں کا وہاں کوئی نام سننے کے لئے تیار نہ ہو۔ آبادی کا بیس فی صد تو بلوچی ہیں جوکبھی گوادر میں بستے تھے۔آج کوئی پاکستانی سو ملین ڈالر کا ایسا منصوبہ پیش کرے جس میں مصنوعات اومان میں تیار ہوں اور ان کو وہاں سے برآمد کیا جائے تو اومان اس میں اٹھانوے فی صد سرمایہ کاری کرنے کوتیار ہے۔ بتایئے اور کیا چاہئے۔