• news

:مشرقی وسطیٰ 100 برس قبل ہونیوالی بندر بانٹ کا خمیازہ بھگت رہا ہے: بی بی سی

لندن (بی بی سی) جب اس دنیا میں ٹھیک ایک سو برس پہلے یکم جنوری 1917ءکا سورج طلوع ہوا تو یہ کرہ¿ ارض پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریوں سے نمٹا رہا تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اور کتنی تباہی ابھی دیکھنا باقی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ صرف ڈھائی برس کے دوران عثمانی سلطنت کے ہاتھوں سے نکل کے مغربی طاقتوں کو منتقل ہوچکا تھا۔ 1917ءکے مشرقِ وسطیٰ میں نئی بندر بانٹ کے نتیجے میں اگلے 100 برس کی تباہی کا فارمولا بالفور ڈکلریشن کی شکل میں لکھا گیا۔ برطانیہ نے کسی کی زمین (فلسطین) کسی کو الاٹ کردی۔ یکم جنوری 2017ءکا مشرقِ وسطی اسی بندربانٹ کا خونی خمیازہ بھگت رہا ہے۔ 1917ءمیں یہاں سامراجی سٹیٹ ایکٹرز اور انکے کٹھ پتلی بچے جمورے ایکدوسرے کو تباہ کر رہے تھے۔ 2017ءمیں انہی سٹیٹ ایکٹرز کے نان سٹیٹ پوتے پڑ پوتے اور بغل بچے یہی کام خوش اسلوبی سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ 1917ءمیں وڈرو ولسن کا امریکہ پہلی بار اپنے براعظم سے باہر کسی بین الاقوامی جنگ میں کودا اور پہلی بار اسے احساس ہوا وہ کتنی آسانی سے اس ٹوٹی پھوٹی لالچی دنیا میں ایک سپرپاور کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ اسکے بعد امریکہ نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ آج سو برس بعد 2017ءمیں بھی امریکہ قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ مگر جیسے سو برس پہلے جرمنی، فرانس، آسٹرو ہنگیرین ایمپائر اور زار ایک دوسرے سے شکار کے گوشت پر لڑ رہے تھے۔ اسی طرح آج سو برس بعد نیا چین اور نیا روس امریکہ سے اپنا حصہ چھیننا چاہ رہے ہیں جبکہ چین سو برس پہلے کے اس امریکہ کی طرح لگ رہا ہے جو نیا نیا گھر سے دنیا فتح کرنے نکلا تھا۔ سو برس پہلے بھی یہ دنیا کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی، آج بھی یہی منظر ہے۔ کردار بدل گئے مگر بھوک وہی ہے، الفاظ بدل گئے مگر نیت تو وہی ہے، اشکال بدل گئیں مگر انسان تو وہی ہے۔ ارے یاد آیا! 1917ءمیں اس کرہِ ارض پر جتنے جانور، چرند، پرند تھے آج انکے صرف 40 فیصد باقی ہیں۔ کیا انہیں بھی ہیپی نیو ایئر کہنا بنتا ہے کہ نہیں اور وہ بھی 'مہذب انسان' کی جانب سے۔
مشرق وسطیٰ خمیازہ

ای پیپر-دی نیشن