ڈپٹی کمشنر کی واپسی؟
-(1)انگریز نے ہندوستان میں جو مضبوط، مربوط اور مستحکم انتظامی ڈھانچہ کھڑا کیا اُسکی اساس اسی ادارے پر رکھی گئی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کو حکومت کی (EYES and EARS) کہا جاتا تھا۔ اسکی بصیرت اور بصارت مسلم تھی۔ مٹھی بھر سفیدفام لوگوں کیلئے اتنے بڑے ملک کو کنٹرول کرنا آسان کام نہ تھا۔ اگر سارے ہندوستانی مل کر پھونک بھی مار دیتے تو برطانوی جزیرے کے مچھیرے بحرہند میں جاگرتے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ ہندوستان گو بڑا ملک تھا مگر چھوٹا ذہن رکھتا تھا۔ انکی باہمی چپقلشوں، مناقشتوں اور منافقتوں سے انگریز نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ برٹش بیوروکریسی نے جس طرح ”ڈیوائیڈ اینڈ رول“ کی حکمتِ عملی اختیار کی اُس نے اہتمامِ خشک و تر کو سہل کر دیا۔ گویا ڈپٹی کمشنر حکومت کا (LiNCHPiN) تھا۔ مرحوم ضمیر جعفری اسے سینگوں والی سروس کہتے تھے۔ (STiCK And CARROT) کا استعمال اور اس میں توازن برقرار رکھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ یہ ایسا عہدہ تھا جس کو پانے کی خواہش اور حسرت راجوں مہاراجوں کے دل کے کسی کونے کھدرے میں موجود رہتی۔ گویا ہر اعتبار سے ڈی سی امرت دھارا تھا۔ بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تمام ضلعی مجسٹریسی اسکے ماتحت تھی۔ تمام فوجداری مقدمات میں ریاست پراسیکیوٹر ہوتی ہے۔ اُس کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے یہ سب PROSE CUTIONS LAUNCH کرتا۔ اس کو یہ اختیار بھی تھا کہ قتل تک کا مقدمہ سیشن عدالت سے واپس منگوا سکتا تھا۔ عملاً ایسا کم ہی ہوتا مگر اختیار اپنی جگہ قائم تھا۔ اس کو یہ اختیار بھی تھا کہ کسی شخص کو ناپسندیدہ یا خطرناک قرار دے کر ضلع بدر کر سکتا یا کسی فسادی کا داخلہ بند بھی کر سکتا تھا۔ ایسا اکثر محرم کے دنوں میں ہوتا۔ بطور ڈسٹرکٹ کلکٹر ضلع کی تمام زمینوں بالخصوص سرکاری زمینوں کا مالک و مختار تھا۔ تحصیلدار یا اسسٹنٹ کمشنر جن مقدمات کا فیصلہ کرتے اُنکی اپیل یہ سنتا۔ سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ اور انہیں پٹے پر دینے کا اختیار بھی اسکے پاس تھا۔ یہ تمام محکموں کا کوآرڈینیٹر تھا۔ اگر کسی محکمہ یا اُس کے اہلکار کی کارکردگی اچھی نہ ہوتی تو اُن کی گوشمالی بھی کر سکتا تھا۔ حکومت کو لکھا ہوا اس کا ایک D.O سارے محکمے کو ہلا کر رکھ دیتا۔ لاءاینڈ آرڈر کا بھی ڈی۔سی۔ انچارج ہوتا۔ بھلے وقتوں میں S.P کی سالانہ خفیہ رپورٹ یہ لکھتا۔ تمام تھانیداروں کے تبادلے بھی اس کی پیشگی منظوری سے ہوتے۔ گو دریاﺅں اور نہروں کی دیکھ بھال محکمہ انہار کا کام ہے لیکن بند ٹوٹنے کی صورت میں اسے جوابدہ ہونا پڑتا۔ مظفر گڑھ میں دریا کا بند ٹوٹ گیا۔ پانی شہر میں داخل ہو گیا۔ محکمہ نہر والے تو صاف بچ گئے لیکن ڈی۔سی کی شامت آگئی۔ وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں نے ملتان ایئرپورٹ پر پریس کانفرنس میں کہا ”میرا جی کرتا ہے کہ ڈی۔سی کو پھانسی دے دوں۔ غصہ میں یہ بھول گئے کہ یہ کام تارا مسیح کو تفویض کیا گیا ہے۔ میاں شہباز شریف جنہوں نے اُس وقت تک ”خدمت“ کا قلمدان نہیں سنبھالا تھا، ڈی۔سی کو چھ گھنٹوں میں تبدیل کرا دیا۔
-(2) شروع میں I.C.S آفیسر انگلستان سے آتے تھے۔ بعد میں محدود پیمانے پر ہندوستانیوں کو بھی مقابلے کے امتحان میں شمولیت کی اجازت مل گئی۔ صرف اس بات کی تسلی کر لی جاتی تھی کہ بھرتی کے بعد آفیسر مکمل طور پر (DEINDIANISED) ہو گیا ہے۔ انہیں ہر اُس بات سے نفرت ہوتی جس پر ہندوستان کی چھاپ لگی ہوتی۔ ایک مرتبہ فارن سروس کے ہلالی صاحب نے عید پر لوگوں کا مجمع دیکھا تو بڑے حیران ہوئے۔ جب انہیں بتایا گیا کہ لوگ نماز عید پڑھنے آئے ہیں تو اپنی کم علمی پر مسکرا کر بولے۔ ”اچھا تم مسلمان لوگ بھی گرجا کرتا ہے“۔
-(3) انگلستان سے جو لوگ آتے وہ نہایت قابل، محنتی اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوتے۔ اگر سلطنت کا مفاد راہ میں حامل نہ ہوتا تو غیرجانبدار رہ کر انصاف کرتے۔ 1934-37 میں ملتان کا ڈپٹی کمشنر (E.P.MOON) تھا۔ اُس وقت لودھراں، خانیوال، وہاڑی، مظفرگڑھ وغیرہ اسکی تحصیلیں تھیں۔ مون کا شمار برصغیر کے بہترین ڈپٹی کمشنروں میں ہوتا تھا۔ وہ مصنف بھی تھا۔ اُس نے دو ہزار صفحات پر مشتمل کتاب لکھی۔
"BRiTiSH CONQUEST and DOMiNiONS of iNDiA" ایک جگہ وہ لکھتا ہے:
I used to Travel on The HORSEBACK Fitty miles a Day I would inspect EACH and Every Police Station and had very Long Discussions with the THANEDARS on LAW AND ORDER ALTHOUGH I was known as a HARSH OFFiCER, I always PROTECTED Police from the EXcesses of JUDiCiARY"
D.C -(3) کے گھر پر ہی نہیں کار پر بھی جھنڈا لگتا۔ جب وہ دورے پر جاتا تو سرخ قالین بچھایا جاتا۔ جتنا بڑا یہ عہدہ تھا اتنے ہی لطائف اس نام کے ساتھ منسوب ہوئے۔ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر دورے پر گیا تو ڈاک بنگلے میں پولیس نے ایک خطرناک ڈاکو اسکے حضور پیش کیا۔ فرط جذبات میں ڈی۔سی نے دراز سے پستول نکالا اور اسے گولی مار دی۔ ڈاکو کے جسم کے ساتھ صاحب بہادر کا غصہ بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ اسے احساس ہوا کہ بڑی بھول ہو گئی ہے۔ گو حاکم وقت لیکن قانون بہرحال قانون تھا اور ہر قسم کی چمک دمک اور رمق سے پاک تھا۔
اپنی کوتاہی کو چھپانے کےلئے اس نے سول سرجن کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ اپنی میڈیکولیگل رپورٹ میں لکھ دے کہ ملزم DiED OF CHOLERA۔ ڈاکٹر نے ایک نظر سے ڈاکو کو دیکھا اور دوسری ڈی۔سی بہادر پر ڈالتے ہوئے بولا۔ حضور! اس کے مردہ جسم سے اُٹھتی ہوئی موجِ خوں آپکے دستِ غیظ تک آن پہنچی ہے۔ آپ قتلِ عمد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ میں کیسے غلط رپورٹ لکھ دوں۔ اس پر ڈی۔سی نے ایک فیصلہ کن جھٹکے سے میز کی دراز کو پھر کھولا۔ بھرا ہوا پستول ڈاکٹر کی کنپٹی پر رکھتے ہوئے بولا:
WRiGT That He DiED OF CHOLERA, OTHERWiSE You ARE ALSO GOiNG TOGET CHOLERA
اس پر ڈاکٹر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لکھا۔ ہیضے کا فوری مرض ملزم کیلئے جان لیوا ثابت ہوا ہے۔ ایک ڈی۔سی کی شادی ہوئی تو اُسکے دفتر کے اسسٹنٹ نے مبارکباد کا تار بھیجا۔
HEARTiEST CONGRATULATiONS OVER YOUR MARRiAGE-MAY GOD GRANT YOU SON at his EARLiEST CONVEN iENCE)
ڈی۔سی صاحب کی بیوی کو دردِزہ شروع ہوا تو کوٹھی پر دائی کو بلوایا گیا۔ سردیوں کا موسم تھا۔ ڈی۔سی سخت ٹینشن میں برآمدے میں چکر لگا رہے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ لان میں لاش پڑی ہے۔ ڈرتے ڈرتے جب وہ اُسکے قریب گئے تو بڑی حیرت ہوئی۔ ایک زندہ شخص اُس غضب کی سردی میں لیٹا ہوا تھا۔ وہ اُن کا تحصیلدار تھا۔ ”ارے تحصیلدار آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ وفادار اہلکار کپڑے جھاڑ کر اُٹھ بیٹھا۔ بولا ”حضورِ انور! اگر اندر بیگم صاحبہ تکلیف میں ہوں تو یہ خاکسار آرام کیسے کر سکتا ہے“۔ دروغ برگردن راوی وہ ملک خدا بخش بُچہ تھے۔ بعد میں وہ نواب کالا باغ کی کابینہ میں وزیر مال بھی رہے۔ وطن عزیز میں ایسے فرض شناس آفیسر ہی ترقی کر سکتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب صاحب نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایک انگریز ڈی۔سی اپنی نئی نویلی دلہن کے ساتھ جب انگلستان سے واپس آیا تو ڈسٹرکٹ ناظر نے ان کا شایانِ شان استقبال کیا۔ رات کو جب وہ حجلہ عروسی میں گئے تو فرض شناس ناظر نے چھت کے روشن دان سے بلیو فلم دیکھنے کا اہتمام کیا۔ اس نے آرکسٹرا کا انتظام پہلے سے کر رکھا تھا۔ عین وقت پر انگلستان کا قومی ترانہ بجنا شروع ہو گیا۔
-(4) قدرت اللہ شہاب نہایت اہم عہدوں پر متمکن رہے لیکن جس طرح مزے لے لیکر چٹخارہ دار زبان میں انہوں نے ”ڈپٹی کمشنر کی ڈائری“ لکھی ہے وہ حاصل کتاب ہے۔ وہ قریباً ایک سال تک جھنگ میں ڈی۔سی رہے۔(جاری)
اُس کتاب میں اُس ضلع ناظر کا ذکر ہے جو اللہ دین کے چراغی جن کی طرح ہر وقت حاضر رہتا ہے اور ڈی۔سی صاحب کے ہر حکم کی تعمیل عبادت سمجھ کر کرتا ہے۔ سفید براق لباس پہنے اور سروں پر مُرغانِ کلنگ سجائے دست بستہ مودب بیروں کا تذکرہ ہے۔ اُن زمینداروں کے قصے ہیں جو ساری رات اس خوف سے سو نہیں سکتے۔ مبادا صاحب نے اُنکی بھیجی ہوئی ڈالیاں لوٹا نہ دی ہوں۔ اُنکی غریب پروری کا یہ عالم تھا کہ نور مائی جب فریاد کرتی ہے کہ پٹواری اسے فرد نہیں دیتا تو اسے جیپ میں بٹھا کر ساٹھ میل کا سفر طے کر کے پٹواری تک پہنچتے ہیں اور اسے جھاڑ پلا کر غریب عورت کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ مُتلی شکایت کرتا ہے۔ تھانیدار چوری کا پرچہ درج نہیں کرتا تو بنفسِ نفیس تھانے پہنچ جاتے ہیں۔ کیا اچھے وقت تھے! افسروں کو کس قدر فراغت نصیب تھی! آج اگر وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ڈپٹی کمشنر کی ”فرید امارت“ سے نکل کر ”حصیر ملازمت“ میں آگئی ہے۔ جوڈیشل پاورز عدلیہ نے لے لی ہیں۔ تعمیراتی کام لوکل کونسلوں کو تفویض ہو گئے ہیں۔ جب زمین ہی باقی نہیں بچی تو ریونیو پاورز کو کیا اُس نے چاٹنا ہے۔ شہاب صاحب کے وقت سے لے کر اب تک بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر گیا ہے۔ درحقیقت اب صرف پانی گزر رہا ہے پل باقی نہیں بچا۔ کہاں ناز و نخوت، جاہ و حشمت کا جہان چار سو۔ اور کہاں ”سوز و ساز و درد و داغ و جستجو و آرزو“۔
کنگ جان نے 1215ءمیں میگنا کارٹا کے وقت کہا تھا:
WHY DONT The BARRONS WiTH THESE UNJUST EXACTiONS ASK MY KiNGDOM.
آج اگر کنگ جان زندہ ہوتا اور اِس کنگ نیم جان کو دیکھتا وہ شاید اپنی کم مائیگی پر یوں کفِ افسوس نہ ملتا۔
-(5) محاورہ ہے مرتے کو ماریں شاہ مدار۔ عصر حاضر کے شاہ مدار جنرل پرویز مشرف نے فیصلہ کیا کہ سو سالہ آزمودہ نظام کو ختم کر کے ایک نیا نظام لایا جائے جس میں ضلع ناظم کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ اس کے پس پردہ بڑی مصلحت کارفرما تھی۔ اسے بتایا گیا کہ ضیاءالحق کے پیچھے ملک کی تگڑی ارائیں برادری تھی۔ مذہبی حلقوں کو بھی اس نے رام کیا ہوا تھا۔ ایوب خان کے ساتھ سرحد کے پٹھان تھے۔ مشرف کا ”آگا پیچھا“ کوئی نہ تھا۔ گو مہاجر تھا لیکن مہاجروں کا مسلم لیڈر الطاف حسین تھا۔ اس کے آگے نہ تو کسی کا چراغ جل سکتا تھا نہ کوئی گردن اٹھا کر چل سکتا تھا۔ ویسے بھی بوڑھ کے درخت کے نیچھے نہیں اُگتا۔ اسے مشورہ دیا گیا کہ ایک ایسا نظام لاﺅ جس میں ناظم ضلع کے سب طبل و علم کے مالک و مختار ہوں اور تمہارے زیربار۔ اُن کی مدد سے صدارت کو طول دیا جا سکتا ہے۔ وردی نے کبھی نہ کبھی تو اُترنا ہی ہے۔ نواز شریف نے تمہیں آﺅٹ آف ٹرن پروموشن بھی اسی لئے دی تھی کہ تمہارا ”آگا پیچھا“ کوئی نہیں ہے۔ اس نصیحت کو مشرف نے حرزِ جاں بنا لیا اور ایک ایسا نظام لے آیا جو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر تھا۔ گورنر پنجاب جنرل صفدر اور دیگر تجربہ کار لوگوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن جنرل نقوی نے اُن کی ایک نہ چلنے دی۔ نقوی سول سروس سے بوجوہ پرخاش رکھتا تھا۔ جب مجوزہ نظام زیرغور تھا تو میں اُس وقت کمشنر بہاولپور تھا۔ گورنر نے مجھے حکم دیا کہ نقوی انتظامیہ کا نکتہ نظر جاننا چاہتا ہے۔ میں جا کر اُس کی سوچ کو (EDUCATE) کروں۔ عرض کیا۔ کب وہ سنتا ہے کہانی میری۔ بولے۔ اتمام حجت بھی کوئی چیز ہے۔ اسلام آباد جا کر میں نے آٹھ گھنٹے تک اپنی مصروفیات پیش کیں۔ علامہ اقبال کا یہ شعر بین بجا کر سنایا کہ ”جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہو گا“۔ جمہوری حکومت اس نظام کو چلنے نہیں دے گی۔ کہنے لگا۔ ان کی ایسی تیسی! ہم مار مار کر ان کی ہڈیاں توڑ دیں گے۔ آخری بات بڑی دلچسپ تھی۔ عرض کیا آپ نے تمام محکموں کو ناظم کے ماتحت کر دیا ہے لیکن پولیس کو کھلا چھوڑ دیا ہے۔ بولا۔ ”وہ اس لئے کیا ہے کہ ناظم پولیس کے ذریعے اپنے مخالفین کو رگید نہ سکے“۔ تو کیا پٹواری انصاف کر پائے گا؟
-(6) نظام کیا نافذ ہوا ایک طوفانِ بدتمیزی مچ گیا۔ سرکاری ملازمین کو سرعام رسوا کیا گیا۔ وہ کمشنرز جو کئی ضلعوں کے سربراہ تھے۔ ڈی۔سی۔او بنا دیئے گئے۔ کمشنر سرگودھا جاوید اسلم کو ضلع ناظم نے کان سے پکڑ کر دفتر سے نکال دیا۔ کمشنر ملتان نجیب اللہ ملک نے میٹنگ میں جب جب اپنی کرسی شاہ محمود ضلع نظام کے ساتھ رکھی تو وہ پھٹ پڑا۔ ایک ڈی۔سی۔او ہو کر میری برابری کرتے ہو!۔ اُس نے کرسی اُٹھوا دی۔ کچھ یوں گمان ہوتا تھا کہ یہ کمشنر نہیں مجرم ہیں جنہیں روم کے اکھاڑے میں پایہ زنجیر لایا جارہا ہے۔
یہ اسی طرح ہی تھا جیسے کسی جنرل کو کرنل بنا دیا جائے۔ لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال بگڑ گئی۔ پولیس مادر پدر آزاد ہو گئی۔ تھانیداروں نے مجسٹریٹوں کو تھانے میں طلب کرنا شروع کر دیا۔ گو قانون کی رو سے ضلع میں اہلکاروں کے تبادلے کے اختیارات DCO اور EDO کو تھے لیکن عملاً تمام تبادلے ناظم کرتا۔ تبادلوں کی طویل فہست ان کو پکڑاتے ہوئے کہتا ”اس پر گھوگی“ پھیر دو۔ پرائس کنٹرول ختم ہو گیا۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ سول ججوں کے پاس کریمنل ورک بھی آگیا۔ سالوں تک مقدمات کا فیصلہ نہ ہو پاتا، ورک لوڈ بہت زیادہ ہو گیا ہے۔
-(7) کیا گیا سو سالہ فرسودہ نظام ختم کر دیا گیا ہے۔ اُس کی جگہ ایسا نظام لایا گیا ہے جو عوام کی اُمنگوں کے مطابق ہے۔ اس ملک میں ہر غلط کام عوام کے نام پر کیا جاتا ہے۔ شہر کو برباد کر کے رکھ دیا۔ اس نے ............ میرے نام پر اس نے کیا۔ عوام کو بڑا فائدہ ہوا۔ پٹواری نے فرد کی قیمت ہزار سے پانچ ہزار کر دی۔ حصہ دار بڑھ گئے تھے۔ یونین ناظم، تحصیل ناظم، ضلع کا مدار المیام، تھانیدار نے رشوت کی رقم تھوک کے حساب سے بڑھا دی۔ ہر چہ باداباد ہو گیا۔
-(8) نئے نظام کے نفاذ سے پہلے میری جنرل حمید گل سے ملاقات ہوئی۔ اُن سے پرانی یاد اللہ تھی۔ جب وہ ملتان میں کور کمانڈر تھے تو میں وہاں ڈپٹی کمشنر تھا۔ کہنے لگے ”یہ نظام چل نہیں سکے گا۔ پہلے والا واپس لانا ناممکن ہو گا۔ ایک عجیب طرح کی کھچڑی پک جائے گی جو انقلاب کی راہ ہموار کرے گی“۔ اُن کی بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی ہے۔ ڈی۔ایم کا وقار مجسٹریسی کی وجہ سے ہے۔ جب تک ڈی۔سی کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات نہیں ملتے اور لوکل اینڈ سپیشل لاز کے علاوہ ایگزیکٹو مجسٹریٹوں کو درجہ اول اور دفعہ 30 ص۔ف کی پاورز نہیں ملتیں، ڈپٹی کمشنر محض نام کی حد تک ضلع آفیسر ہو گا۔ پولیس کبھی بھی پرانا نظام بحال نہیں ہونے دے گی۔ ابھی سے احتجاج شروع ہو گیا ہے۔ جوڈیشری بھی اپنے اختیارات کم نہیں ہونے دے گی تو پھر نیا نظام کیسے کامیاب ہو گا؟ AN EXERCISE IN FUTiLiTY
-(9) ایک آمر کا مخصوص ذہن ہوتا ہے۔ آمریت اپنی رائے خود منتخب کرتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وقتی مفاد کے لئے یہ ایک نظام لاتے ہیں اور پھر خود ہی اُس کو چلنے نہیں دیتے۔ ایوب خان نے بنیادی جمہوری بتوں کا نظام نافذ کیا۔ صدر کو ووٹ دینے کے لئے 80 ہزار .... کا الیکٹورل کالج بنا۔ انتخاب کے وقت شاطر سیاستدانوں نے جب محترمہ فاطمہ جناح کو اُس کے مقابل لاکھڑا کیا تو اُس کے پسینے چھوٹ گئے۔ جس دھونس، دھاندلی اور بے حیائی سے اُس نے الیکشن جیتا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ضیاءالحق نے اتنا تردد بھی نہ کیا۔ ریفرنڈم کرا ڈالا۔ بڑا سادہ اور معصوماہ سوال پوچھا گیا ”کیا آپ ایک خدا، ایک کتاب اور ایک رسول پر یقین رکھتے ہیں؟ سب نے ہاں“ کہا۔ اس پر جنرل صاحب نے ڈھول بجا دیا۔ ضیاءالحق پر قوم نے اعتماد ظاہر کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک سکھ انسپکٹر آف سکولز معائنہ کے لئے گیا۔ اُس نے چوتھی جماعت کے بچوں کی قابلیت جاننے کے لئے سوال کیا۔ بولا۔ ”ایک ریل گاڑی ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہے اس نے 170 میل کا فاصلہ طے کرنا ہے۔ اچھا اب بتاﺅ۔ میری عمر کیا ہے؟“ باقی بچے تو چپ رہے صرف ایک نے ہاتھ لہرایا۔ کیا تم جواب جانتے ہو؟ جی ہاں۔ آپ کی عمر پچاس برس ہے“۔ بالکل درست! انسپکٹر نے توصیفی نظروں سے دیکھا۔ تمہیں کیسے پتہ چلا۔ لڑکا بڑی معصومیت سے بولا۔
"SiR I HAVE A HALF BORTER WHOIS HALF MAD AND HE IS TWEWTY FIVE YEAR OLD!"
مشرف کے تجربے کا پول بھی جلد ہی کھل گیا۔ ریفرنڈم میں جن ناظموں نے چندہ نہ دیا یا مخالفت کی اُن کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ اُن میں شاہ محمود سرفہرست تھا۔ یہ جب پرویز مشرف کے استقبال کے لئے ملتان ایئرپورٹ پر گیا تو پولیس کے سپاہی نے اسے لاﺅنج میں جانے سے روک دیا۔ اس پر احتجاجاً بولا۔ میں ضلع ناظم ہوں اور جنرل صاحب کا استقبال میرے فرائض منصبی میں شامل ہے۔ کانسٹیبل نے جواب دیا وہ بڑا دلچسپ تھا۔ (SO, WHAT?)