معذوری زندگی نہیں زندگی کا حصہ ہے: ڈاکٹر انعم نجم
لندن (بی بی سی) چہرے پر مستقل مسکراہٹ سجائے، نرم لہجے میں گفتگو کرنے والی ڈاکٹر انعم نجم مظفرآباد کے ہسپتال میں شعبہ نفسیات میں مریضوں کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ ان سے بات کر کے قطعی احساس نہیں ہوتا کہ اس نوجوان ڈاکٹر کا اپنی گردن سے نیچے کے جسم پر کوئی اختیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر انعم میڈیکل کے تیسرے سال میں تھیں جب مارچ 2008 ء میں دوران سفر ڈاکوؤں کی گولی نے انہیں زندگی بھر کیلئے جسمانی طور پر معذور کر دیا۔ اپنی معذوری کی داستان سناتے ہوئے لمحہ بھر کو بھی انعم کے چہرے پر کوئی افسوس دکھائی نہیں دیا۔ شروع شروع میں انعم کو میڈیکل کی طالبہ ہونے کے ناطے پوری امید تھی کہ چند دنوں میں وہ چلنے پھرنے لگیں گی کیونکہ ان کی ہمہ وقت متحرک اور زندگی سے بھرپور شخصیت بستر پر لیٹنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی، لیکن یہ انتظار مہینوں اور پھر برسوں پر پھیل گیا۔ انھیں اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے حتی کہ کروٹ بدلنے جیسے ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے گھر والوں کی مدد ضرورت پڑتی تھی۔معذوری ان کے لیے پہلا بڑا جھٹکا تب لائی جب عزیز و اقارب کے بعد ان کے تعلیمی ادارے نے بھی ان کی تعلیم جاری رکھنے کے سلسلے میں مایوسی کا اظہار کر دیا۔ انعم کے بقول یہی وہ لمحہ تھا جب انھیں احساس ہوا کہ اگر تعلیم حاصل نہ کی تو آنے والی زندگی ان کے لیے اس سے بھی زیادہ مشکلات لائے گی۔ انہوں نے والدین سے ضد کی کہ انہیں ہسپتال کے بستر پر ہی کتابیں لا کر دی جائیں کیونکہ وہ تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ انعم کہتی ہیں کہ 'اس سارے عرصے میں اگر میں پہلی بار روئی تو اْس دن جب میں پہلی بار ویل چیئر پر بیٹھی تھی لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے کیونکہ میری زندگی میں حرکت لوٹ آئی تھی۔ اب میں ایک جگہ ساکن نہیں رہوں گی۔' کالج انتظامیہ نے انھیں ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ اگر انعم آنے والے امتحان میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو انھیں میڈیکل کی تعلیم جاری رکھنے کی اجازت ہو گی۔ انعم اس امتحان میں کامیاب رہیں۔ انعم کہتی ہیں میں نے خود کو ’میں ہی کیوں؟‘ والی مایوسی سے نکالا کیونکہ میں جو ہوا اسے بدل نہیں سکتی تھی اب مجھے تبدیلی اپنے اندر لانا تھی۔' 'اِن ایبیلیٹی اور ڈس ایبیلٹی میں فرق ہوتا ہے۔ اِن ایبیلیٹی میں آپ کرنا ہی نہیں چاہتے جبکہ ڈس ایبیلٹی یعنی معذوری میں آپ تھوڑی زیادہ محنت کے بعد وہی کام کر سکتے ہیں۔ انعم اب ذہنی مریضوں کا کامیابی سے علاج کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہے: اکثر مریض تو مجھے دیکھ کر ہی بہتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اگر آپ ہمت کر سکتی ہیں تو ہمارے مسائل تو آپ کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں۔انعم کے ہاتھ اب قدرے حرکت کرنے لگے ہیں جن کی مدد سے وہ اپنی الیکٹریکل ویل چیئر کو خود آپریٹ کرنے لگی ہیں۔ دھیرے دھیرے انعم نے شادی بیاہ جیسی تقریبات میں بھی جانا شروع کر دیا۔ وہ کہتی ہیں: پہلی بار ملنے والے ہمیشہ ہمدردی کرتے ہیں لیکن مجھے لوگوں کو بتانا ہے کہ یہ معذوری ہی میری زندگی نہیں بلکہ محض میری زندگی کا حصہ ہے۔