نجم سیٹھی کی سرگرمیاں اور کرکٹرز کی گرمیاں
پاکستان کرکٹ بورڈ کی اہم شخصیات کی طرف سے سرد موسم میں گرم بیانات‘ زبانی و جسمانی تشدد نے کھیلوں کے صحافیوں کو متحرک رکھا ہوا ہے۔ آپ حیران ہونگے کہ یہ زبانی تشدد کیا ہوتا ہے۔ لیجئے جناب یہ جو شہریار خان نے اظہر علی کی کپتانی کے حوالے سے بیان جاری کیا تھا وہ کسی تشدد سے کم تھا وہ تو بھلا ہو اظہر علی کا کہ انہوں نے بحیثیت بلے باز کچھ اچھا کر لیا ورنہ چئیرمین کے اس پرتشدد بیان کا منفی اثر لیکر وہ ناصرف ون ڈے ٹیم کی کپتانی سے جاتے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ٹیسٹ ٹیم میں بھی جگہ خطرے میں پڑ جاتی۔قومی کرکٹ ٹیم کے غیر ملکی کوچ مکی آرتھر نے اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑیوں کی سلیکشن،انکے کھیل یا فٹنس کے حوالے سے ایک انٹرویو میں جسطرح اپنے خیالات کا اظہار کیا وہ بھی اپنے سپاہیوں پر ہی فائرنگ سے کم نہیں۔ یہ الگ بات کہ بعد میں کرکٹ بورڈ مکی آرتھر کے انٹرویو کی وضاحتیں دیتا رہے لیکن مکی آرتھر اپنا کام کر چکے۔ اظہر محمود نے جسطرح فاسٹ بولر کی نو بالز کی تعداد میں کمی کو شمار کیا ہے وہ کرکٹ کے ماہرین کی سماعتوں پر تشدد سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ وہاب ریاض کی نو بالز تو ضرب المثل بنتی جا رہی ہیں۔ ایک انوکھی چیز ہمارے ہاں یہ بھی ہے کہ ریجنل کوچز کو بھاگ بھاگ کر سلیکشن کمیٹی میں شامل کر لیا جاتا ہے وہ سلیکشن کمیٹی سے فارغ ہوتے ہیں تو پھر ریجن کے ساتھ مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ سلیکشن کے معاملے میں اتنے اچھے ہوتے تو ریجن کی ٹیموں کا یہ حال ہوتا جو آج ہے۔ اسی طرح فارغ بیٹھے بعض افراد کو ہر ماہ بھاری تنخواہیں ادا کر کے بورڈ کے خزانے پر تشدد کیا جا رہا ہے حالانکہ ان باصلاحیت افراد کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔اور تو اور سابق چیف سلیکٹر ہارون رشید کی جانب سے وقار یونس کی سلیکشن پالیسی کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس سے اتفاق کرنا خاصا مشکل ہے۔ سمیع اسلم اور مختار احمد کے نام اخبارات میں شائع ہوئے ہیں کہ وقار یونس نے اپنے دور میں انہیں مسترد کیا تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں آخر کب پاکستان کے لیے کھیلے کیا اس وقت وقار یونس پاکستان کے کوچ نہیں تھے؟؟؟ اسی طرح محمد عامر کی واپسی کے حوالے سے بھی ہارون رشید نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ وہ اس معاملے میں پورا سچ بولتے یا پھر خاموش رہتے۔ اب جسمانی تشدد کی بات کر لی جائیتو باسط علی کا محمود حامد کو مبینہ تھپڑ میڈیا میں "ان" ہے۔ اس مبینہ تھپڑ کیوجہ سے باسط علی کو وویمن ٹیم کی کوچنگ اور جونئیر سلیکشن کمیٹی کی سربراہی سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریارخان نے انہیں دونوں عہدوں سے فارغ کر دیا ہے۔ واقف حال بتاتے ہیں کہ باسط علی کو گورننگ بورڈ کی کراچی میں ہونیوالی میٹنگ کے دوران طلب کیا گیا تھا گاڑی انہیں لینے کے لیے بھی گئی لیکن وہ بورڈ ممبران کے سامنے پیش نہ ہو سکے۔ دوسری طرف کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی ان دنوں میڈیا سے روابط بڑھا رہے ہیں۔ ہر دوسرے دن انکی کوئی نا کوئی سرگرمی ضرور نظر آتی ہے۔ چونکہ پاکستان سپر لیگ کا زمانہ ہے اسے کمپنی بنانے کے حوالے سے خاصے تحفظات ابتک سامنے آ چکے ہیں گو کہ نجم سیٹھی نے اپنے مختلف انٹرویوز میں تفصیلی جوابات بھی دیے ہیں لیکن پھر بھی اس معاملے میں ابہام باقی ہے۔ اراکین پارلیمنٹ میں بھی اسمیں خاصی دلچسپی لے رہے ہیں میڈیا میں بھی اس کے مستقبل پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ نجم سیٹھی کی تفصیلی بریفنگ کے باوجود شکوک و شبہات کا قائم رہنا بہر حال سوالیہ نشان ہے۔ ایگزیکٹو کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے وہ غیر ملکی ٹیموں کو قائل کرنے کی کوششوں میں بھی مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان سپر لیگ کا لاہور میں فائنل اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ویسٹ انڈیز ٹیم کی پاکستان آمد پر بات چیت جاری ہے۔ دونوں کام احسن طریقے سے ہو گئے تو یقینا یہ کرکٹ بورڈ کی بڑی کامیابی ہو گی۔