پانامہ شریف پانامہ رانی اور لڑکیوں کی دوڑ
تحریک انصاف کا فواد چودھری کسی ٹی وی چینل پر نجانے کس کی ترجمانی کر رہا تھا۔ اس حوالے سے وہ بڑا اہل آدمی ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کا بھی ترجمان رہ چکا ہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے اس سے کوئی بے انصافی کی ہو گی۔ اب وہ یہاں سے نجانے کہاں جائے گا؟ غالباً اس نے یا تحریک انصاف کے کسی اسی طرح کے ’’سیاستدان‘‘ نے مریم نواز شریف کا ذکر کرتے ہوئے اسے پانامہ رانی کہہ دیا۔ نواز شریف کے لیے تو عمران خان نے پانامہ شریف کہا تھا۔ عمران خان نے بھی کئی دفعہ مریم نواز کا ذکر کیا مگر ایک مہذب طریقے سے کیا۔ اب ہم فواد چودھری کو کیا کہیں کہ ہمارے کلچر میں عورتوں کے لیے سلیقے سے بات کی جاتی ہے۔ مریم نواز ابھی روٹین کی خاتون سیاستدانوں کی طرح نہیں ہوئیں کہ انہیں اس طرح مخاطب کریں جبکہ عمران خان اپنے مخالف سیاستدانوں کے لیے بات کرنے کا ایک ہی طریقہ جانتا ہے۔ بھٹو صاحب نے بھی صدر جنرل ایوب کی وزارت انجوائے کرنے کے بعد جو لہجہ اختیار کیا تھا وہ مزیدار تھا مگر معنی خیز بھی تھا۔ لوگوں نے انجوائے کیا۔ لوگ طلال چودھری کو بھی انجوائے کرتے ہیں۔ کبھی کبھی دانیاں عزیز کی باتیں بھی مزیدار ہوتی ہیں۔ فواد چودھری تحریک انصاف کے طلال چودھری بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ طلال چودھری تحریک انصاف جائن کر لیں گے۔ ورنہ فواد چودھری تو مسلم لیگ ن میں جا رہے ہیں۔ برادر کالم نگار ناصر اقبال خان نے کہا کہ فواد چودھری جنرل مشرف کے ترجمان تھے۔ ایک معصوم آدمی مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ کیا فواد چودھری اور طلال چودھری ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
فواد چودھری مرشد و محبوب مجید نظامی کی فوتیدگی پر نظر آیا۔ اچھا لگا مگر سیاسی طور پر اس کی مصروفیات اور معمولات اچھے نہیں لگتے۔ مجھے اس سے امید ہے کہ وہ سیاسی طور پر کوئی کردار ادا کرے گا۔
طلال چودھری اور دانیال عزیز نے کہا ہے کہ اب میاں محمد شریف کی قبر کا ڈی این اے ٹیسٹ نہ کروائیں تو تحریک انصاف والوں کے لیے اچھا ہو گا۔ اس جملے کے ذریعے یہ غور کر لینا چاہیے تھا کہ یہ جملہ میاں محمد شریف کے حق میں ہے یا نہیں ہے۔
شیخوپورہ میں پولیس کنسٹیبل کی بھرتی کے لیے خواتین کی بھی دوڑ لگوائی گئی۔ وہاں سے پرویز ورک نے بتایا کہ لڑکیوں کی بری حالت تھی۔ ان کے دوپٹے اترے ہوئے تھے۔ انہیں عام لوگوں کے سامنے کھلی سڑک پر دوڑ لگانے کا حکم دیا گیا تھا۔ مجھے لڑکیوں کی دوڑ پر اعتراض نہیں ہے۔ کیا پورے شیخوپورہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں زیادہ بے عزتی نہ ہوتی۔ کیا شیخوپورہ میں کوئی سٹیڈیم نہیں ۔ 25 سال اور اس سے کم عمر کی لڑکیاں دیوانہ وار دوڑی تھیں جسے تماشائی مردانہ وار بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ باقاعدہ ہوٹنگ ہو رہی تھی۔ آوازے کسے جا رہے تھے۔ یہ کام محفوظ طریے سے بھی ہو سکتا تھا۔ بھرتی کے لیے تو دوڑ ضروری ہے اور تھانوں میں جو پیٹ باہر نکالے ہوئے وردی سے باہر آنے والے پولیس اہلکاروں پر ڈی پی او شیخوپورہ سرفراز ورک کی نگاہ نہیں پڑتی۔ جس آدمی کا پیٹ بڑھا ہوا نہ ہو اور وہ بے تحاشا موٹا نہ ہو اسے پولیس والا کہتے ہوئے سوچنا پڑتا ہے۔ ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں کہا جاتا۔ وہ ورزش نہیں کرتے۔ صرف گالیاں نکالتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کھانا ہضم ’’لکڑ ہضم پتھر ہضم‘‘
فواد چودھری صاحب کا ایک اور جملہ قابل ذکر ہے جب شاہ محمود قریشی نے کہا کہ منظر بدل رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے وکلا بدل چکے ہیں۔ لگتا ہے رت بدل رہی ہے۔ اس پر فواد چودھری بولے کہ مسلم لیگ (ن) کو وکلا تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ قیادت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بھی مسلم لیگ ن ایک مخمصے میں پڑی ہوئی ہے کہ نواز شریف کے بعد دبنگ وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سامنے آئیں گے یا مریم نواز کو قومی اسمبلی کے لیے الیکشن لڑایا جائے گا۔ پھر آصف زرداری اور نواز شریف کی نشست ساتھ ساتھ ہونا چاہیے تو پھر بلاول بھٹو زرداری ایوان میں کہاں بیٹھیں گے۔ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ پہلے وہاں موجود ہیں۔ نجانے ہمارے حکمران اور سیاستدان فوجی جرنیلوں سے کیوں ڈرتے ہیں۔ اب تو صورتحال بالکل نارمل ہو چکی ہے۔ جنرل راحیل شریف نے بہت نام بنایا ہے اور بہت محبت حاصل کی ہے۔ انہوں نے نواز شریف کو بہت آسودگی دی اور تعاون کیا۔ میں نے جنرل راحیل شریف کے لیے ایک جملہ لکھا تھا۔ میں نہیں چاہتا کہ جنرل صاحب براہ راست سیاست میں آئیں مگر وہ سیاست کو تو راہ راست پر لائیں۔
نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی جنرل راحیل شریف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ میں تو چند پاکستانی جرنیلوں سے واقف ہوں۔ جنرل ایوب خان جنرل ضیاالحق، جنرل راحیل شریف۔ اللہ کرے جنرل باجوہ بھی لوگوں کے دلوں میں راہ بنا لیں۔ اب ہمارے حکمرانوں کو جرنیلوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ لطیفے لطف لینے کے لیے ہوتے ہیں اور ان کے اندر حقیقتیں چھپی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار تلخ حقیقتیں بھی کہیں نہ کہیں موجود ہوتی ہیں۔
ایک جنگل میں ایک اکیلی لڑکی نے کسی آدمی کو دیکھا تو کہا کہ تم مجھے چھیڑو گے۔ اس نے کہا کہ بی بی میرے سر پر گٹھڑی ہے۔ ہاتھوں میں سامان ہے۔ میں تمہیں کیسے چھیڑ سکتا ہوں۔ لڑکی نے کہا پہلے تم سامان زمین پر رکھو گے، سر پر سے گٹھڑی اتارو گے پھر مجھے چھیڑو گے۔ !