مجید نظامی جیسا نڈر بے خوف حوصلہ مند ایڈیٹر نہیں دیکھا : ضیا شاہد
لاہور (خصوصی رپورٹر) نڈر ، بے خوف اور حوصلہ مندایڈیٹر نہیں دیکھا۔ ہمیں آج ان کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ ان خیالات کااظہار ممتاز صحافی اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے صدر ضیاءشاہد نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان، لاہور میں منعقدہ خصوصی لیکچر بعنوان ”قائداعظمؒ کا تصور پاکستان“ کے دوران کیا۔ ضیاءشاہد نے کہا مجھے نوائے وقت میں 11سال مجید نظامی کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا اور مجھے ان سے بہت محبتیں اور شفقتیں ملیں۔ جنرل ضیاءالحق کا دور تھا اور میں کراچی میں نوائے وقت کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ ایک دن میرے پاس رپورٹر اور فوٹو گرافر ایک خبر اور تصویر لیکر آئے جس کے مطابق گورنر سندھ کی اہلیہ گورنر ہاﺅس سے ایک جلوس لیکر نکل رہی ہیں اور انہوں نے جو بینر پکڑ رکھا ہے اس پر درج تھا ”بے نظیر کو رہا کرو“۔ یہ بہت اہم تصویر اور خبر تھی اور میں اس کی حساسیت سے بھی آگاہ تھا۔ چنانچہ میں نے لاہور مجید نظامی صاحب کو فون کیا اور اس تصویر اور خبر سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا تم سے کسی نے اس خبر کو چھاپنے یا نہ چھاپنے کے متعلق رابطہ کیا ہے؟ میں نے کہا ‘جی نہیں۔ تو انہوں نے مجھے یہ خبر اور تصویر چھاپنے کی اجازت دیدی۔ ان دنوں موبائل ٹیلی فون تو نہیں تھے اور لینڈ لائن ٹیلیفون کا ہی زمانہ تھا جبکہ مجید نظامی صاحب کی طبیعت بھی کچھ ٹھیک نہیں تھی اور وہ 8بجے شب ٹیلی فون کا ریسیور آف کر دیتے تھے۔ اب میرے دفتر میں صوبائی وزیر اطلاعات احد یوسف، سیکرٹری انفارمیشن، فوج سے ایک آدمی اور پھر ہوم سیکرٹری بھی آگئے ۔ انہوں نے کہا ہم نے تمام اخبارات کو اس بار پر راضی کر لیا ہے صبح کے اخبارات میں یہ تصویرنہیں چھاپیں گے لہٰذا آپ بھی اسے شائع نہ کریں۔ میں نے کہا میں اسے چھاپنے کی اجازت مجید نظامی صاحب سے لے چکا ہوں لہٰذا آپ نے اس خبر کو رکوانا ہے تو ان سے رابطہ کریں۔ میں صرف انہی کے کہنے پر یہ خبر روک سکتا ہوں۔انہوں نے مجید نظامی صاحب سے رابطہ کرنے کی متعدد بار کوشش کی لیکن ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔میں نے ان سے کہا آپ پی آئی ڈی لاہور آفس فون کریں اور وہاں سے کوئی آدمی مجید نظامی صاحب کے گھر جائے اور ان سے رابطہ کرے۔ انہوں نے پی آئی ڈی آفس رابطہ کیا اور وہاں سے لوگ مجید نظامی کے گھر بھی گئے لیکن ان سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ اسی دوران مجھے وفاقی سیکرٹری اطلاعات جنرل مجیب الرحمن کا ٹیلی فون آیا اور انہوں نے بھی مجھے یہ تصویر شائع کرنے سے منع کیا میں نے انہیں بھی وہی جواب دیا آپ مجید نظامی صاحب سے رابطہ کریں۔ تھوڑی دیر بعد وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات راجہ ظفر الحق کا ٹیلی فون آگیا۔ انہوں نے بھی یہی بات دہرائی لیکن میرا جواب واضح تھا ، آخر انہوں نے کہا کیا آپ صدر صاحب (جنرل ضیاءالحق) کے کہنے پر ہی اسے روکیں گے۔ میں نے کہا میں آپ کو بتا چکا ہوں جب تک مجید نظامی صاحب مجھے نہیں کہتے میں اس خبر یا تصویر کو نہیں روکوں گا۔ آخر کار وہ سب تھک گئے۔ مجھے جنرل مجیب الرحمن کا پھر فون آیا تم شوق سے اسے چھاپ لو لیکن ہم اسے تقسیم نہیں ہونے دیں گے‘ انہوں نے چند اور باتیں بھی غصے میں کہیں۔ میں نے کہا یہ بعد کی باتیں ہیں۔ انہوں نے دفتر کے چاروں اطراف پولیس کھڑی کر دی۔ لیکن اخبار شائع بھی ہوا اور تقسیم بھی ہوا۔ حقیقت میں سب مجید نظامی صاحب سے خوفزدہ تھے ایسی کوئی حرکت ہوئی تو ان کا ردعمل کیا ہو گا۔ یہ خبر اعلیٰ حلقوں تک پھیل چکی تھی اور اس پر بڑی بحث بھی ہو رہی تھی ۔ لہٰذا اگلی صبح گیارہ بجے کی فلائٹ سے مجید نظامی صاحب کراچی پہنچ گئے۔ وزارت اطلاعات ونشریات سمیت دیگر محکموں کے بھی اعلیٰ سرکاری افسران وہاں موجود تھے۔ انہوں نے مجید نظامی سے میری بارے میں بہت شکایات کیں اور نوکری سے نکالنے کا بھی کہا۔مجید نظامی صاحب سب کی سنتے رہے اور آخر میں مجھ سے مخاطب ہوئے ‘تم کیا کہتے ہو۔ میں نے کہا میں نے آپ کی اجازت سے اسے شائع کیا ہے اور میں نے انہیں کہا تھا مجید نظامی صاحب کہیں گے تو میں اس کو روک لوں گا۔ مجید نظامی صاحب نے کہا میری صدر صاحب (جنرل ضیاءالحق) سے بات کراﺅ۔ ان کی ٹیلی فون پر جنرل ضیاءالحق سے بات ہوئی تو سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا جنرل صاحب‘ یہ تصویر اور خبر والا معاملہ تو آپ تک بھی پہنچا ہو گا، انہوں نے کہا میرے علم میں ہے۔ آگے کیا بات چیت ہوئی اس کا مجھے زیادہ علم نہیں لیکن مجید نظامی صاحب نے انہیں جواب دیا آپ کے گورنر سے اپنی بیوی نہیں سنبھلتی تو آپ پورا ملک کیسے سنبھالیں گے۔ انہوں نے کہا ہمیں بھارت کے ساتھ دبنگ لہجے میں بات کرنی چاہئے اور معذرت خواہانہ رویہ ترک کردینا چاہئے۔ محترم مجید نظامی کا موقف اس سلسلے میں بڑا واضح تھا اور انہوں نے متعدد بار میری موجودگی میں بھی اس کا اظہار یوں کیا مجھے ایٹم بم سے باندھ کر بھارت پر پھینک دو۔ آج مجید نظامی کی کمی بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے ‘ وہ حیات ہوتے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں ان کے بیانات کیسے جارحانہ ہونا تھے۔ نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ سے مجید نظامی کی طرح گرجدار آواز اٹھنی چاہئے۔ مجید نظامی صاحب ساری زندگی کشمیریوں کے حقوق اور انہیں حق خودارادیت دینے کی بات کرتے رہے۔ان کا کہنا تھا کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں وزیراعظم اور کمانڈر انچیف سے مطالبہ کیا میرا کشمیر مجھے واپس لا دو۔بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے بعد ایٹمی دھماکے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں رائے لینے کیلئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سے مشاورت شروع کر رکھی تھی۔ اسی سلسلے میں ایڈیٹرز کی بھی ایک میٹنگ ہوئی۔ میں بھی اس میں موجود تھا۔ نواز شریف نے مجید نظامی صاحب سے رائے لی تو انہوں نے کہا ‘ وزیراعظم صاحب دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔ میری خواہش تھی قائداعظمؒ کی زندگی پر ایک اچھی فلم بنائی جائے اور اس سلسلے میں مجید نظامی نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی فرمائی۔میرے خیال میںاکبر ایس احمد کی فلم ”جناح“ میں حقائق صحیح طرح سے بیان نہیں کیے گئے۔ جب یہ فلم سامنے آئی تو اس میں کچھ بہت متنازعہ سین تھے ، میں نے مجید نظامی صاحب سے جا کر بات کی اس فلم میں حقائق کو صحیح طرح پیش نہیں کیا گیا ہے لہٰذا اس کی نمائش رکوانی چاہئے ۔ انہوں نے کہا اس فلم کو سنسر بورڈ نمائش کی اجازت دے چکا ہے لیکن تم کوشش کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں نے فلم ”جناح“ کی نمائش رکوانے کیلئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی۔جسٹس فقیر محمد کھوکھر کی عدالت میں کیس گیا اور ہم یہ کیس جیت گئے ۔ عدالت نے مجید نظامی، جسٹس جاوید اقبال، اشفاق احمد، ذکی الدین پال، اعتزاز احسن اور مجھ سمیت ایک کمیٹی قائم کر دی اوربعدازاں اس فلم سے متنازعہ سین نکال کر اسے نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔
ضیا شاہد