لندن فلیٹس‘ بیانات میں تضاد ہوا تو شریف فیملی کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے‘ قطری خط نظرانداز نہیں کر سکتے‘ پی ٹی آئی بیانات کے ثبوت بھی دے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل نے اپنے موکل کی گذشتہ سالوں میں عوامی عہدوں سے متعلق تفصیلات عدالت میں جمع کرادی ہیں تحریک انصاف کے وکیل کے دلائل جاری تھے عدالتی وقت ختم ہونے پر مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ عدالت صرف سچ جانناچاہتی ہے لوگ بھی سچ جانناچاہتے ہیں جب ہم سچ تک پہنچ جائیں گے توعدالت کیلئے معاملہ آسان ہوگا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجازافضل خان ، جسٹس گلزاراحمد ، جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس اعجازالحسن پرمشتمل پانچ ر کنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت کی۔ مخدوم علی خان نے نوازشریف کے پنجاب کے وزیرخزانہ بننے سے لے کر دوسری مرتبہ وزیراعظم کاعہدہ سنبھالنے اورمیاں نوازشریف کی ملک بدری تک کی تاریخوں سے متعلق اٹھائے گئے عدالتی سوالات کی روشنی میں جواب عدالت میں جمع کرادیا بتایاگیاکہ میاں نوازشریف اپریل1981ئ،سے فروری 1985ءتک پنجاب کے وزیرخزانہ جبکہ اپریل 1985 ءسے مئی 1988ءتک وزیراعلٰی رہے ،بعدازاں دسمبر1988ءسے اگست1990ءتک دوبارہ صوبائی وزیراعلٰی کے طورپرخدمات انجام دیں وہ نومبر1990ءسے اپریل 1993 تک وزیراعظم کے عہدے پربراجمان رہے اورفروری 1997ءمیں دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوکراکتوبر1999ءمیں حکومت کے خاتمے تک اس عہدے پربرقرارہے ،دسمبر 2000ءمیں ان کوملک بدرکیا گیا، دسمبر2007 ءمیں وطن واپس آئے اورالیکشن2013ءکے نتیجے میں تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوگئے ، عمران کے وکیل نعیم بخاری نے دوسرے روزبھی اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایاکہ وزیراعظم کی دونوں تقاریرمیں قطری خط کاذکرنہیں میاںشریف کی جس وصیت کی بات کی جارہی ہے اس حوالے سے کوئی شواہد نہیں کہ یہ کب اورکس کے سامنے لکھی گئی۔ جس پرجسٹس اعجازافضل نے کہاکہ ہم اس ایشوکونہیں سن رہے عدالت نے قطری خط کو دیکھناہے کہ وہ صحیح ہے یانہیں ، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان سے کہاکہ وزیراعظم نے ا پنے خطاب میں کہا تھاکہ ہمارے پاس اپنے بچوں اوربزنس کاساراریکارڈ موجود ہے جوعدالت کوپیش کیاجائے گایہی موقف قطری خاندان التانی نے بھی اپنایااوربتایاکہ وہ ا پناریکارڈ صرف عدالت کوپیش کریں گے ، عمران کے وکیل نے کہاکہ وزیراعظم اوران کے بیٹوں کے بیان میں تضاد ہے اورقطری خط کونکال دیاجائے توہماراموقف درست ثابت ہوگا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اگر اس خط کوکیس سے نکال بھی دیاجائے تب بھی دوسرے فریق کاموقف تبدیل نہیں ہوگا، جسٹس ا عجازالحسن نے کہاکہ اصل ایشووقت کے حوالے سے ہے کہ کب ہوا، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ دوسرافریق کہتاہے کہ جائیداد 2006ءمیں خریدی گئی آپ نے ہمیں ٹھوس شواہد پیش کرنے ہیں عدالت کوترغیب نہ دی جائے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ میں خود قطری خط کے حوالے سے حیران ہوں اورسوچتاہوں کہ جوخط دوسرے فریق نے اپنی سپورٹ میں پیش کیا ،اسے ان کے موقف کے برعکس استعما ل کیاجاسکتاہے یانہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے فاضل وکیل سے کہاکہ اگران کاموقف درست نہیںتواس کایہ مطلب نہیں کہ آپ ٹھیک ہیں آپ کوپھربھی سچ ثابت کرناہوگا،نعیم بخاری نے کہاکہ میں عدا لت کوباورکراناچاہتا ہوں کہ بیٹوں کاموقف وزیراعظم کے موقف سے سراسرمتضاد ہے نعیم بخاری نے فاضل عدالت سے کہاکہ گزشتہ روزسماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا تھا کہ عدالت کوکیس سے متعلق اخباری تراشوں کی ضرورت نہیں اب اگرعدا لت اجازت دے تومیں چنداخباری تراشے دکھاناچاہتاہوں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہاکہ پانی کوگدلانہ کریں، جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اخباری تراشے فیصلے نہیں ہوتے ، فاضل وکیل نے کہاکہ بعض ا یسے عدا لتی فیصلے موجود ہیں جواخباری تراشوں کی بنیاد پرکئے گئے ، جس پرفاضل جج نے کہاکہ ایسے فیصلوں کے شواہد کو جانچناہوگا، نعیم بخاری نے کہاکہ جن تراشوں کی تردید نہیں کی گئی کیاان کی وقعت ہوگی ، جسٹس آصف سعید نے کہاکہ اخباری تراشے دوطر ح کے ہوتے ہیں ایک عمومی جن کاکیس سے کوئی تعلق نہیں ، دوسرے تراشے متعلقہ افراد یافریق کے بیانات یاانٹرو یوہوتے ہیں جن کی تردید نہیں کی جاتی ، وہ وقعت رکھتے ہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ اگر شواہد ریکارڈ کئے جائیں توایسے تراشے بروئے کارلائے جاسکتے ہیں لیکن کیاہم شواہد ریکارڈ کررہے ہیں ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فاضل وکیل سے کہاکہ آپ ایسے بیانات دکھادیں توبوقت ضرورت متعلقہ فریق سے پوچھاجاسکتاہے،نعیم بخاری نے بیگم کلثوم نوازکے ایک غیرملکی اخبارکودیئے گئے انٹرویو کاحوالہ دیاجس میں انہوں نے کہاکہ ہم نے لندن میں پاک لینڈ اورفلیٹس اس لئے خریدے کہ بچے باہر پڑھ رہے تھے ، جسٹس شیخ عظمت سعید نے ان سے کہاکہ آپ خطرناک حدود میں داخل ہورہے ہیں اگراس ا نٹرویو کودکھایاجائے توآپ کاموقف برقرارنہیں رہ سکتا، نعیم بخاری نے حسن نوازکابی بی سی کو1999ءمیں دئے گئے انٹرویوکاحوالہ دیا جس میں کہاگیاتھا کہ وہ لندن میں رینٹ پرقیام پذیرہیں جس کیلئے فنڈزوالد صاحب نہیں دیتے بلکہ یہ فنڈزپاکستان سے آتے ہیں ، جسٹس کھوسہ نے کہاکہ ایک چیزواضح ہے کہ اس وقت حسن نوازکی کوئی آمدن نہیں تھی ، نعیم بخاری نے وزیراعظم کی صاحبزادی مریم صفد رکے انٹرویو کاحوالہ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ میراسیاست سے دورکابھی تعلق نہیں لندن میں پانچ جائیدادیں میری کہاں سے نکالی گئیںاوروہ والد کی زیرکفالت ہیں فاضل وکیل نے سات مارچ 2016 ءکوحسین نوازکے ایک اورانٹرویوکاذکرکیاجس میں بتایاگیاتھاکہ میرا بھائی 21 سال سے کاروبارکررہاہے۔ نعیم بخاری نے بتایاکہ جب لندن میں التوفیق کیس کافیصلہ ہوا تھااس وقت میاں نوازشریف وزیراعظم تھے فیصلہ کے بعد لون ا ورجرمانہ کی مد میں 43 ملین ڈالر اداکئے گئے تھے، 1999ءسے یہ جائیداد ان کی تھی اگرالتانی خاندان کی ہوتی توشریف خاندان کاموقف مختلف ہوتا، ظفرعلی شاہ کیس میں منی ٹریل کامکمل تفصیل موجود ہے، جسٹس کھوسہ نے کہاکہ 12ملین درہم کے علاوہ 43 ملین ڈالربھی ہیں جس کے بارے میں پوچھاجائے گا ، جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ 1999ءمیں حسین نوازطالب علم تھاکیاایسی معلومات ہیں کہ انہوں نے کب کاروبارشروع کیا، جسٹس اعجازالحسن نے کہاکہ اگرکفالت کاایشودیکھناہے تواگرمریم صفدرکی اپنی جائیدادہوتی تو و ہ ٹیکس ادا اور کاغذات نامزدگی میں جائیداد کاذکرکرتیں ، جسٹس کھوسہ نے فاضل وکیل سے استفسارکیاکہ آپ وزیراعظم کونااہل کراناچاہتے ہیں یاان کے بچوں کیخلاف ہیں ،نعیم بخاری نے کہاکہ میں ڈیکلریشن کی روشنی میں بات کررہاہوں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے نے کہاکہ پہلے زیرکفالت کے ایشوپرآئیں ،نعیم بخاری نے کہاکہ ویلتھ ٹیکش کے ضمن میں مریم صفد رنے دوکروڑ 48 لاکھ کی جائیداد ظاہرکی ہے۔ تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ہم اسحاق ڈار، کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اور وزیراعظم کی نااہلی چاہتے ہیں، وزیراعظم کے بچوں کو صرف اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے فریق بنایا ہے۔ ججز نے ریمارکس دیئے کہ زیر کفالت ہونے کو واضح کئے بغیر دلائل ہوا میں قلعہ بنانے کے مترادف ہے، آپ وزیراعظم کو نااہل کرانا چاہتے ہیں یا بچوں کو بھی، آپ اپنے دلائل کی سمت کا تعین کریں۔ عدالت نے تحریک انصاف کے وکیل سے کہاکہ آپ بلند و بانگ بیانات دے رہے ہیں۔ آپ کو ان کے ثبوت بھی دینا ہوں گے اگر خط غلط ہے، تو اس پر بحث کیوں کر رہے ہیں، عدالت نے کہا کہ شریف خاندان کا کوئی بھی فرد اپنے انٹرویو یا اخباری بیان کی تردید کرتا ہے تو اس کو عدالت میں بلایا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ قطری شہزادے کا خط سنی سنائی باتیں ہیں تو اسے بطور ثبوت کیوں استعمال کر رہے ہیں، جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادے کا خط ہماری نہیں وزیراعظم کی پیش کردہ دستاویز ہے، خط کو کارروائی سے نکال پھینکا جائے۔ نعیم بخاری کی استدعا پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ اس خط کو کیسے نکال پھینکیں کیونکہ وزیراعظم کے بچوں کا انحصار اس پر ہے، یہ خط وزیراعظم کے بچوں کی تائید میں لکھا گیا ہے، اگر خط نکال دیا تو بچوں کے موقف کی حیثیت کیا ہو گی۔ نعیم بخاری نے کہا کہ قطری شہزادوں کو نکال دیں تو پتہ چل جائے گا ساری جائیداد شریف فیملی کی ہے، فلیٹ خریدتے وقت فلیٹ شریف فیملی کے تھے۔ نعیم بخاری نے کہا مریم نواز وزیراعظم کی زیر کفالت تھیں اور ہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پہلے زیر کفالت ہونے کی تعریف بھی کرنا ہوگی۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو کوئی عجلت نہیں تمام فریقین کو دلائل دینے کا موقع دینے کی کوشش کی جائے گی کہ سماعت کے حوالے سے تشنگی نہ رہے۔ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت سے استدعا کی کہ کل سماعت نہ کی جائے پیر کو سماعت کی جائے جسے عدالت کی طرف سے مسترد کردیا گیا۔ بی بی سی کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کہتے ہیں کہ جلا وطنی کے بعد انھوں نے جدہ میں فیکٹری لگائی کیونکہ مشرف دور میں ان کے تمام کاروبار کو بند کر دیا گیا تھا۔ اگر یہی بات ہے تو فیکٹری لگانے کے پیسے کہاں سے آئے؟ ا±نھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے مالیاتی مشیر نے کہا تھا اس بارے میں تمام ثبوت موجود ہیں اور ان کا ریکارڈ وزیراعظم کے وکیل کے پاس ہے لیکن عدالت میں اس ضمن میں کچھ بھی جمع نہیں کروایا گیا اور ان کے وکلا کا موقف تھا کہ ا±ن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم کے بچوں کے جواب کا سارا دار و مدار اسی خط پر ہے، اسے کیسے نظر انداز کر دیا جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ بخاری صاحب آپ بلند و بانگ بیانات مت دیں، ان کے ثبوت دینا ہوں گے۔ نعیم بخاری نے بیگم کلثوم نواز کے سال 2000ءمیں دیئے گئے انٹرویو کا حوالہ دیا تو جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اخباری خبروں کا بھی قانون کے مطابق جائزہ لیں گے۔ سماعت میں جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر پیش کیے گئے اخباری انٹرویو کی تردید آئے تو متعلقہ صحافی کو بلایا جاتا ہے، اگر کوئی اپنے انٹرویو کی تردید کرے تو اس کو عدالت میں بلایا جا سکتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اگر انٹرویو یا اخباری خبر پر کسی کو ہم پھانسی لگا دیں تو آپ کا م¶کل بھی نہیں بچے گا، ہمیں 500 سال قبل والے ٹرائل پر نہ لے جائیں۔ عدالت نے کہا کہ مریم زیر کفالت ہیں تو آدھے لندن کی مالک کیسے ہوئیں۔ آدھے لندن کی مالک ہیں تو زیر کفالت کیسے ہو سکتی ہیں۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ بخاری صاحب سوینگ سٹیٹمنٹ نہیں ثبوت دیں۔ لگ رہا ہے کہ جو ہیڈ لائن لگے گی وہ نعیم بخاری کے فارغ ہونے کی ہوگی۔ نعیم بخاری نے سوال کیا یہ آپ کا فیصلہ ہے یا بنچ کا متفقہ فیصلہ ہے۔ ہیٹر چلنے پر نعیم بخاری نے تبصرہ کیا کہ اب سمجھے مجھ پر بے ہوشی کیوں طاری ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بے ہوشی کی وجہ ہیٹر نہیں، جج صاحب کے سوال ہیں۔