احسن اقبال کا کالاباغ ڈیم کو سی پیک سے منسلک نہ کرنے کا افسوسناک عندیہ
وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پوری قوم پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر متفق ہے‘ یہ کسی جماعت کا نہیں‘ پورے پاکستان کا منصوبہ ہے۔ گزشتہ روز جی سی سی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں سی پیک منصوبوں کو 31 مارچ تک حتمی شکل دینے پر اتفاق ہوا ہے جبکہ اجلاس میں آٹھ ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبوں پر کام شروع ہونے کا بھی عندیہ دیا گیا۔ انکے بقول 2018ءمیں دس سے گیارہ ہزار میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائیگی۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں اس امر کی وضاحت کی کہ دریائے سندھ پر جس منصوبے پر اتفاق رائے ہے‘ اسے سی پیک میں شامل کیا جائیگا تاہم کالاباغ ڈیم کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سی پیک میں بجلی کا ایسا کوئی بھی متنازعہ منصوبہ شامل نہیں کریگی جس سے کسی صوبے کی خودمختاری متاثر ہو یا فیڈریشن کیلئے آگے چل کر مسئلہ بنے۔ انہوں نے بتایا کہ جی سی سی کے اجلاس میں 9 انڈسٹریل زون بنانے پر اتفاق ہوا ہے جو چاروں صوبوں‘ فاٹا‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں قائم ہونگے جبکہ سندھ میں کے ٹی بندرگاہ کے مقام پر انڈسٹریل زون لگانے پر اتفاق کیا گیا۔ اسی طرح کے پی کے میں اشکئی‘ بلوچستان میں بوستان‘ پنجاب میں شیخوپورہ‘ کشمیر میں بھمبر‘ گلگت بلتستان میں میک پونڈ اور فاٹا میں مہمند ماربل سٹی کے مقام پر پاک چین اکنامک زون قائم کئے جائینگے۔
یہ طے شدہ امر ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری محض سڑک کا نام نہیں بلکہ یہ ایک توانائی کے حصول و ترسیل کا ایک جامع منصوبہ ہے چنانچہ انرجی کوریڈور کے حوالے سے ہی ہمارے لئے اس منصوبے کی اہمیت و افادیت ہے۔ اس تناظر میں ملک میں جہاں بھی انرجی کے حصول کے ممکنہ ذرائع موجود ہیں‘ انہیں سی پیک کے ساتھ منسلک کرکے ملک کی توانائی کی ضرورت پوری کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ سی پیک کا منصوبہ ہمارے لئے اس حوالے سے ایک نعمت ہے کہ اسکے اپریشنل ہونے سے ہم گزشتہ دو دہائیوں سے جاری توانائی کے بحران پر قابو پا سکتے ہیں جس کیلئے ہم اپنے آبی وسائل بروئے کار لائیں گے اور ان وسائل پر زیادہ سے زیادہ ڈیم تعمیر کرینگے تو ان ڈیمز کے پونڈز میں ہم وافر مقدار میں پانی ذخیرہ بھی کرلیں گے جو خشک سالی میں ہمارے کام آئیگا اور ہماری فصلیں تباہ ہونے سے بچ جائیں گی۔ ہمیں گزشتہ دو ماہ کے دوران بارشیں نہ ہونے کے باعث ملک پر طاری ہونیوالے خشک سالی اور اسکے نتیجہ میں فصلوں کی تباہی کے پیدا ہونیوالے خطرات سے بھی کچھ سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ہمارے پاس کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں پانی کا ذخیرہ موجود ہو تو ہمیں خشک سالی کے خطرات کا کبھی سامنا نہ کرنا پڑے۔
منصوبہ بندی و ترقی کا وفاقی وزیر ہونے کے ناطے ملک اور عوام کے بہترین مفاد میں منصوبے طے کرنا اور ان پر عملدرآمد کرانا احسن اقبال کی ذمہ داری ہے اس لئے منصوبہ بندی کمیشن کے اجلاس میں بالخصوص سی پیک سے منسلک منصوبوں کا جائزہ لیتے ہوئے انہیں کالاباغ ڈیم سمیت تمام ممکنہ ڈیمز کی تعمیر کیلئے پیش رفت کرنے کا مثبت عندیہ دینا چاہیے تھا کیونکہ ملک کے آبی وسائل پر قومی ضرورتوں کے مطابق ڈیمز تعمیر کرنے کا یہی نادر موقع ہے۔ اگر ایک ذمہ دار وفاقی وزیر کی جانب سے ہی کالاباغ ڈیم کو متنازعہ قرار دے کر اسے سی پیک کے ساتھ منسلک نہ کرنے کی بات کی جائیگی تو پھر پاکستان کی ترقی و استحکام کے درپے ہمارے دیرینہ دشمن بھارت اور یہاں موجود اسکے ایجنٹوں کے حوصلے کیوں بلند نہیں ہونگے۔ اول تو قومی ترقی کے حامل کسی منصوبے کو قومی اتفاق رائے سے مشروط ہی نہیں کیا جانا چاہیے جیسا کہ خود بھارت میں کسی ڈیم کی تعمیر کے معاملہ میں قومی اتفاق رائے کا کبھی سوال نہیں اٹھنے دیا گیا اور اگر ہمارے حکمرانوں کی کمزوریوں اور انکی اقتدار بچاﺅ والی مفاہمت کی سیاست کے باعث بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے والے بعض عناصر کو کالاباغ ڈیم پر اپنی سیاسی دکانداری چمکانے اور اسے متنازعہ بنانے کا موقع ملا ہے تو قومی ترقی اور توانائی کے وافر حصول کے ضامن اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا بھی حکمرانوں کی ہی ذمہ داری ہے چہ جائیکہ کہ متعلقہ وفاقی وزیر خود ہی اس منصوبے کو متنازعہ قرار دینا شروع کردیں۔
جس منصوبے کیلئے دریائے سندھ کے موزوں ترین سائیٹ کا انتخاب کرکے 60ءکی دہائی میں پیپر ورک شروع ہوا اور اس پر ابتدائی کام کا آغاز کرکے چھ ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ بھی کرلی گئی‘ اسے مفاد پرستی کی سیاست کی نذر ہونے دینا بذات خود ایک قومی المیہ ہے حالانکہ 60ءکی دہائی سے اب تک کے حکمرانوں میں سے کسی ایک کے دل میں بھی قومی ترقی کے ضامن کالاباغ ڈیم کی تعمیر و تکمیل کی لگن ہوتی تو مفاد پرستی کی کوئی سیاست اسکی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی تھی مگر یہ طرفہ تماشا ہے کہ سیاہ و سفید کے مالک جرنیلی آمروں نے بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی قوت رکھنے کے باوجود اس منصوبے کی طرف توجہ نہ دی جبکہ اس منصوبے کو متنازعہ بنانے کا سب سے زیادہ موقع جنرل ضیاءالحق کی جرنیلی آمریت اور پھر انکے لائے گئے غیرجماعتی نظام کے دوران ملا جب اس وقت کی حکمران مسلم لیگ کے سندھ اور سرحد کے وزراءاعلیٰ اعلانیہ کالاباغ ڈیم تعمیر نہ ہونے دینے کے نعرے لگاتے رہے اور سندھ میں پیپلزپارٹی اور سرحد میں اے این پی کے کچھ لیڈران بھی اپنی اپنی مفاداتی سیاست کے تحت کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں انتہائی اقدامات کی دھمکیاں دیتے نظر آئے۔ اسی طرح جرنیلی آمر مشرف کے پاس بھی کالاباغ ڈیم تعمیر کرکے قوم کے سامنے سرخرو ہونے کا بہترین موقع تھا مگر انہوں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان اس وقت کیا جب انکے اقتدار کیخلاف وکلاءاور سول سوسائٹی کی تحریک شروع ہوچکی تھی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں بالآخر انہیں اقتدار سے ہٹنا پڑا چنانچہ ان کا کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا اعلان بھی نقش برآب ثابت ہوا۔ مشرف کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی تو زرداری صاحب نے مفاہمتوں کی سیاست کو ہی اپنے اقتدار کی بنیاد بنایا اور 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر انہوں نے اے این پی کے ساتھ کالاباغ ڈیم تعمیر نہ کرنے کی مفاہمت کرلی جبکہ اس حوالے سے سب سے زیادہ افسوسناک صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب اس وقت کی اپوزیشن مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے بھی 18ویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر حکمران پیپلزپارٹی اور اے این پی کی کالاباغ ڈیم کیخلاف مفاہمت پر صاد کرلیا۔ اس جماعت کی قیادت نے اقتدار میں آنے کے بعد بھی کالاباغ ڈیم کیخلاف اس منافقانہ مفاہمت کی پالیسی کو برقرار رکھا ہوا ہے چنانچہ اس پالیسی کے ماتحت ہی اب منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے سی پیک سے منسلک انرجی منصوبوں میں کالاباغ ڈیم کو شامل نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے حالانکہ انہیں تو سی پیک کے حوالے سے پیدا ہونیوالے قومی تعمیر و ترقی کے نادر موقع کو خود کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے بروئے کار لانا چاہیے تھا۔
کالاباغ ڈیم پر تکنیکی بنیادوں پر اٹھائے جانیوالے اعتراضات کا تو واپڈا کے موجودہ سے سابقہ تمام چیئرمینوں تک ہر ایک نے ٹھوس دلائل کے ساتھ جواب دے دیا ہے اور کالاباغ ڈیم کی افادیت بھی اجاگر کردی ہے مگر یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ حکمران مسلم لیگ (ن) نے کالاباغ ڈیم کی افادیت اجاگر کرنے کیلئے کئی اقساط پر مشتمل تحقیقی مقالہ لکھنے والے واپڈا کے چیئرمین ظفرمحمود کو کالاباغ ڈیم پر ہونیوالی مفاداتی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا جبکہ اب انکے جانشین موجودہ چیئرمین واپڈا بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو ملک کی توانائی کی اور آبی ضرورتیں پوری کرنے کیلئے ضروری قرار دے رہے ہیں۔ اسکی روشنی میں توقومی ترقی کے ضامن اس منصوبے پر قومی اتفاق رائے کی بات کرنے کے بجائے حکومت کو اس ڈیم کی تعمیر پر جت جانا چاہیے اور اس پر ہونیوالی سیاست سے ہرگز مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔ نوائے وقت گروپ نے کالاباغ ڈیم پر چند سال قبل قومی ریفرنڈم کا اہتمام کرکے اس پر اتفاق رائے کی راہ پہلے ہی ہموار کردی ہوئی ہے کیونکہ اس ریفرنڈم میں ملک بھر سے 99.99 فیصد عوام نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں رائے دی تھی۔
اگر آج عالمی آبی ماہرین بھی ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں کہ پاکستان میں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے گرنے کے باعث یہاں آنیوالے چند سالوں میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائیگی تو حکومت کو بہرصورت پانی زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کرنیوالے منصوبوں پر کام کا آغاز کر دینا چاہیے جن میں کالاباغ ڈیم کا شامل ہونا اس لئے ضروری ہے کہ اس پر پہلے ہی کافی کام ہوچکا ہے۔ اگر آج حکومت کے ذمہ دار وزیر ہی اس منصوبے کو متنازعہ قرار دے کر اسے سی پیک کے ساتھ منسلک نہ کرنے کا عندیہ دینگے تو پھر حکومت اس منصوبے کے ثمرات سے پوری قوم کے مستفید ہونے کی کس بنیاد پر داعی ہوگی۔ اس حوالے سے احسن اقبال کو اپنی سوچ اور حکمران مسلم لیگ (ن) لیگ کی قیادت کو اپنی پالیسی پر بہرصورت نظرثانی کرنی چاہیے۔