”منروا“ کی ملکیت آف شور کمپنیاں کب اور کیسے بنیں‘ شریف فیملی ثبوت دے ورنہ تحریک انصاف کا دعوی درست سمجھیں گے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے ”پانامہ پیپرز لیکس“ کیس میں تحریک انصاف کے وکیل سے مصدقہ دستاویزات، شواہد اور ٹھوس ثبوت پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے قرار دےا کہ تصدیق شدہ شواہد کے بغیر عدالت حقائق کو سامنے نہیں لاسکتی ، فاضل عدالت بااختےار آئینی ادارہ ہے مالکان سے بھی پوچھیں گے کہ بیرون ملک کمپنےاں کیسے بنائیں؟ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 9 جنوری تک ملتوی کردی۔ ایڈووکیٹ شاہد حامد نے پیش ہوکر عدالت کو بتایا کہ وہ کیس میں مریم صفد ر، کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈارکے وکیل کی حیثیت میں پیش ہوں گے، نعیم بخاری نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ مریم صفدر لندن جائیداد کی بینفیشل اونر ہے لیکن جائیداد کی رقم کا اصل تعلق وزیراعظم سے ہے جو1993 ءسے 1996ءکے دوران نیسکال اور نیلسن کے نام پر خرید کر بعد میں مریم صفدرکے نام پر منتقل کی گئی مریم صفدر نے کبھی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا، اس نے اپنے والد سے گفٹ کے نام پر2011 ءمیں تین کروڑ سترہ لاکھ ، 2012ءمیں پانچ کروڑ 26 لاکھ، 2013 ءمیں سات کروڑ 68 لاکھ روپے وصول کئے 2011ءمیں چوہدری شوگرملزسے چارکروڑ تیئس لاکھ قرضہ لیا، جس میں بورڈ آف ڈائریکٹرزکا حصہ تھی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ا ن سے استفسار کیا کہ وہ چوہدری شوگر ملز کا حصہ تھی تو ملز کے حصص کب مریم صفدر کو دئیے گئے نعیم بخاری نے کہا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے، نعیم بخاری نے بتایا کہ لندن جائیداد کی ملکیت دونوں کمپنیوں نیسکال اور نیلسن کے پاس ہے مریم اس کی ٹرسٹی بھی ہیں اور بینیفیشل اونر بھی ، 15 مارچ 2012ءکوبھیجی گئی ایک ای میل کے مطابق ان کوحقیقی اونر ظاہر کیا گیا ہے۔ گلزار احمد نے کہا کہ جن باتوں یا ای میلز پر آپ تکیہ کررہے ہیں یہ تو ایک ادارے موزیک میں اندرونی گفتگو سے متعلق دستاویزات ہیں، فاضل وکیل نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے کے مطابق نیلسن اور نیسکال مریم صفدرکی ملکیت ہیں جو رینٹ پر نہیں بلکہ مالکان کے پاس ہی ہیں اور یہ ملکیت پانامہ لیکس سامنے آنے سے بہت پہلے ان کے پاس ہے جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ یہ جائیداد کس طرح ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کومنتقل کی گئی۔ نعیم بخاری نے کہاکہ جائیداد دونوں کمپنیوں کے پاس تھی فاضل جج نے کہا کہ اس حوالے سے ریکارڈ دکھایا جائے۔ نعیم بخاری نے بتایاکہ کوشش کی گئی، مگر ریکارڈ تک رسائی نہ مل سکی تاہم مینروا نامی کمپنی سے اس کی تصدیق کرائی گئی کہ مریم صفدر جائیداد کی اونر ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ منروا نامی کمپنی سے مدعا علیہ کا تعلق کس طرح ثابت ہوتا ہے کیونکہ ان کا فیملی بزنس تو ساٹھ سال سے چل رہا ہے، آپ کہتے ہیں کہ حسن نواز اور حسین نواز دونوں نے ڈیل پر دستخط کئے ہیں اگر کئے ہیں تو وہ کہاں ہیں وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے منروا کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی بتایا جائے کیا ٹرسٹ قائم ہوا اور وہ قانون کے مطابق بن کر رجٹسرڈ بھی ہوا ہر ٹرسٹ کو اپنا ٹیکس نمبر بھی دیا جاتا ہے اگر آمدن نہیں تب بھی ریکارڈ رکھا جاتا ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ حکومت کے علاوہ باہر کا کوئی آدمی ریکارڈ نہیں فراہم کرسکتا ، قانون شہادت کے مطابق جس نے الزام لگایا ہے وہی ثابت بھی کرے گا عدالت کسی کو اس امر پر مبجور نہیں کرسکتی کہ وہ اپنے خلاف شواہد پیش کرے تاہم عدالت کسی بھی موقع پرکسی فریق سے سوالات پوچھنے کے ساتھ متعلقہ ریکارڈ پیش کرنے کا بھی حکم دے سکتی ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے عمران کے وکیل سے کہا کہ آپ جو چاہیں کریں لیکن شواہد اور دستاویزات پیش کرنا ہی پڑیں گے یہ الگ بات ہے کہ جب ہم شواہد کی بات کرتے ہیں تو آپ بائیکاٹ کرتے ہیں، جسٹس آصف سعید نے فاضل وکیل سے کہا کہ آپ اپنے موکل سے کہیں کہ وہ ڈاکومنٹس لائیں دوماہ ہوگئے کیس سے متعلق دستاویزات نہیں لائے جاسکے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دوسرے فریق کو بھی مینروا کے بارے میں بتانا پڑے گا اگر وہ نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کے ڈاکومنٹس اصلی ہیں فریقین میں اس امر پر اختلاف نہیں کہ نام مریم صفدر کا ہے لیکن کس حیثیت میں ہے لیکن اگر یہ بے نامی ہے تو بات و اضح ہوجائے گی، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل 13کے تحت کسی بھی فریق کی جانب سے پیش کردہ ڈاکومنٹس اس وقت تک مصدقہ نہیں ہوں گے جب تک حکومت یا مجاز اتھارٹی اسے تسلیم نہیں کرے گی آپ کی پیش کردہ دستاویزات کہاں تک مصدقہ ہیں اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ حقیقت کے بارے میں دونوں فریقین سے پوچھا جائے گا۔ فاضل جج نے نعیم بخاری کی جانب سے ای میل کے مندرجات پڑھنے پر واضح کیا کہ ای میل آپ نے بھیجا نہ وصول کیا اس لئے اس کو بنیاد نہ بناکر پیش نہ کیا جائے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہاں عدالت کے دائرہ اختیار کا کوئی معاملہ نہیں ہم کوئی بھی ریکارڈ یا ڈاکومنٹس طلب کرسکتے ہیں جب دوسرا فریق آئے گا اس سے بھی ڈاکومنٹس کا پوچھا جائے گا۔ نعیم بخاری نے کہاکہ اصل تنازع لندن جائیداد کی خرید کا ہے مریم صفدر بینیفشری ہیں۔ اعجاز افضل نے کہا کہ یہ بات قبل ازوقت ہے آپ ریکارڈ دیں ہم جائزہ لیں گے۔ جسٹس آٰصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہمیں ہرچیز ریکارڈ کے ساتھ چاہیے نعیم بخاری نے کہاکہ میں نے دستاویزات پیش کی ہیں جس کے مطابق مریم صفدر نے نیسکال کمپنی کے شیئرز فروخت کئے ہیں ان کا مزید کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے بیٹوں سے 74 کروڑ روپے وصول کئے لیکن ٹیکس ادا نہیں کیا حالانکہ بینکنگ چینل کے ذریعے ترسیل ہوئی۔ ایف بی آر نے نوٹس لینے کی بجائے ان کی معاونت کی ان کیخلاف کارروائی کی جائے، دوسری جانب چیرمین نیب نے ان باتوں کا نوٹس تک نہیں لیا اس لئے اس کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیج کر ان کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ این این آئی اور آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس معاملہ کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ دستاویزات سے متعلق عدالت کو مطمئن کیا جائے، شریف خاندان کمپنیوں کی ملکیت تسلیم کرتی ہے تو دستاویز فراہم کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے، بتانا پڑے گا کہ کمپنیاں کب بنیں، کس نے بنائیں اور اس کے لیے پیسہ کہاں سے آیا؟ عدالت کو بے اختیار نہ سمجھا جائے، عدالت کے پاس اختیار ہے کہ ریکارڈ پیش کرنے کا حکم جاری کرے، سچ تک پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے جبکہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیسکول سے متعلق تحریک انصاف کی طرف سے جمع کرائی گئی دستاویزات پر جعلی دستخط ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں مریم نواز نے کہاکہ وہ جائیداد کی بینیفیشل مالک نہیں، صرف کمپنیوں کی ٹرسٹی اور سگنیٹری ہیں اور ٹرسٹی ہونے کا مقصد موجودہ ٹرسٹی کی موت کی صورت میں ٹرسٹ کو چلانا ہے۔ مریم نواز کے مطابق نیسکول سے متعلق دستاویزات پر جعلی دستخط ہیں، یہ دستاویزات نام نہاد پانامہ لیکس کا حصہ نہیں۔ مریم نواز نے اپنے جواب میں 5 سال کی آمدن کی تفصیلات بھی بتادیں اور اس پر انکم ٹیکس کی تفصیلات بھی دی ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے شریف فیملی کے مالیاتی مشیر ہارون پاشا کا انٹرویو بطور ثبوت عدالت میں جمع کرایا گیا جو انہوں نے 6 دسمبر 2016 کو نجی ٹی وی کو دیا تھا۔ عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ انٹرویو کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔ سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کےخلاف الیکشن کمشن میں بھی یہی معاملہ زیر سماعت ہے اور الیکشن کمشن میں درخواستیں سپریم کورٹ کے بعد دائر ہوئیں یا پہلے۔ جس پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ الیکشن کمشن کے روبرو بھی وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ ہے اور الیکشن کمشن میں درخواستیں پہلے سے دائر تھیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا عدالت کو شریف فیملی کی طرف سے نامکمل ریکارڈ دیا گیا۔ شریف فیملی دستاویزات نہیں دیتی تو نعیم بخاری کی بات ماننا پڑے گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے نعیم بخاری سے اپنے مکالمے میں کہا کہ آپ اپنے پتے ظاہر کریں۔ بخاری صاحب آپ کی کاوشوں کی تعریف کرتے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ اگر نواز شریف کی فیملی مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ’منروا‘ کی ملکیت ثابت نہ کرسکی تو عدالت یہ تصور کرے گی کہ اس بارے میں پاکستان تحریک انصاف کے وکیل کا دعویٰ درست ہے۔ بنچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ بارِ ثبوت فراہم کرنا ا±ن افراد کی ذمہ داری ہے جن کے قبضے میں جائیداد ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’نیسکول‘ اور ’نیلسن‘ منروا کمپنی کے نیچے کام کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیدادیں خریدی گئیں جبکہ مریم نواز منروا کمپنی کی ’بینیفشری‘ ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے نعیم بخاری سے استفسار کیا کہ کیا ا±ن کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لندن میں خریدے گئے فلیٹس مریم نواز کو منتقل کیے گئے۔ اس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے نفی میں جواب دیا۔ بنچ میں موجود جسٹس اعجاز افضل نے پی ٹی آئی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت میں پیش کی گئیں دستاویزات کے بارے میں بنچ کو مطمئن کریں اور اگر تفصیلات نہ دی گئیں تو پھر ان دستاویزات کو ادھورا سمجھا جائے گا۔ ا±نہوں نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت کچھ ثبوت فراہم کرنا ا±ن کی بھی ذمہ داری ہے۔