• news

فوجی عدالتوں کی مدت آج ختم نہیں بڑھا رہے نثار : پیپلز پارٹی‘ دیگر جماعتیں توسیع کی مخالف

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی) دہشتگردوں کو سزا دینے والی فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہو گئی فوجی عدالتیں آج سے دہشتگردوں کے مقدمات نہیں سن سکیں گی۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ چودھری نثار نے بتایا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کی کوئی تجویز زیر غور نہیں۔ فوجی عدالتیں دو سال کی مدت کےلئے قائم کی گئی تھیں اب ایسے مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چلیں گے۔ فوجی عدالتیں سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے قائم کی گئی تھیں۔ فوجی عدالتوں کی مدت گزشتہ روز 12بجے رات ختم ہو گئی۔ اٹارنی جنرل کے مطابق مقدمات انسداد دہشتگردی عدالتوں میں جائیں گے۔ تجویز ہے انسداد دہشتگردی عدالتیں جیل کے اندر ٹرائل کریں۔ فوجی عدالتوں میں اس وقت کوئی کیس زیر سماعت نہیں۔ یہ عدالتیںوزیراعظم نوازشریف کی صدارت میں ہونے والی اے پی سی کے متفقہ فیصلوںکے بعد 7جنوری 2015ءکو قائم کی گئی تھیں۔ اے پی سی میں سابق صدر آصف علی زرداری، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی شریک ہوئے تھے۔ اے پی سی کے فیصلوں کے تحت نیشنل ایکشن پلان بھی تشکیل دیا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوجی عدالتوں کی توسیع میں مخالفت کے بعد حکومت نے دہشت گردی کے مقدمات کی فوری سماعت کیلئے پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے ایک قانونی مسودے کی داخلہ کی قائمہ کمیٹی منظوری دے چکی ہے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ کے آئندہ اجلاسوں میں نئی قانون سازی متوقع ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے نیا قانون متعارف کرانے کی کوششیں شروع کردیں جس کے تحت ججوں اور گواہوں کی شناخت مخفی رکھی جائیگی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے قانونی امور بیرسٹر ظفر اللہ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ نئی قانون سازی کیلئے مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔ اگر سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں میں توسیع کیلئے ساتھ نہیں دیتیں تو اگلے چند دنوں میں مسودہ پیش کردیا جائیگا، اگر فوجی عدالتیں قائم نہیں رہتیں تو مقدمات سول عدالتوں میں منتقل ہو جائیں گئے۔ قانون سازی کیلئے ہماری برطانوی حکومت کے ماہرین سے بات چیت ہوئی ہے کہ جج کی شناخت کیسے چھپانی ہے۔ وہ سماعت کرے مگر پتا نہ ہو کہ جج کون ہے۔ گواہوں کو کیسے چھپانا ہے، ان کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ ویڈیو کے ذریعے سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ کیا کوئی ڈھال نما پردہ لگایا جا سکتا ہے گواہ اور ملزم کے درمیان؟ انہوں نے مزید کہا یہ تمام جدید تکنیکیں زیرِغور ہیں۔ یقیناً پاکستان میں مقدمات کی منصفانہ سماعت کا نظام موجود ہے تو ہم ایسی چیزیں تو نہیں کر سکتے جو بالکل آئین کے خلاف ہوں۔ انہوں نے بتایا پروٹیکشن آف پاکستان آرڈیننس اب ختم ہو چکا ہے مگر اس کی گواہان کے بارے میں کچھ غیر متنازع دفعات اچھی تھیں جنہیں ہم بہتر بنا رہے ہیں۔ دہشت گردی کی تعریف میں مسائل ہیں، بعض اوقات اس کی تعریف بہت وسیع ہو جاتی ہے اور وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اسے جامع بنایا جائے۔ یہ نہیں کہ کسی پر چھوٹی موٹی بات پر دہشت گردی کا الزام لگ جائے۔ ہم اسے تھوڑا انسانیت کے دائرے میں لانا چاہتے ہیں۔ دریں اثناءپیپلزپارٹی کے ترجمان سینٰٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ ہماری پارٹی فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید توسیع کرنے کے حق میں نہیں ۔ ہمارا تجربہ ہے کہ دوسالوں میں جیٹ بلیک دہشتگردوں کے علاوہ عام قاتلوں کو بھی ان عدالتوں کے ذرےعے سزائیں دی گئیں جو فوجی عدالتوں کے مینڈیٹ سے باہر تھا۔ دریں اثناءرائٹرز کی رپورٹ کے مطابق قانون دانوں نے انسانی حقوق کے حوالے سے ان عدالتوں کے قیام پر تنقید کی ہے۔ رائٹرز کے مطابق فوجی عدالتوں کو اب تک 275 کیسز ریفر کئے گئے ہیں۔ ان عدالتوں نے 161 افراد کو سزائے موت اور 116 افراد کو عمر قید و دیگر سزائیں سنائی ہیں۔ 12مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ 127 سزا پانیوالوں نے سویلین عدالتوں میں اپیلیں کی ہیں۔
فوجی عدالتیں

ای پیپر-دی نیشن