• news

کشمیر قراردادوں پر اقوام متحدہ کی آنکھیں بند ہیں : رضا ربانی ....امن کیلئے مسئلہ کا حل ناگزیر ہوچکا : یاسین ملک

اسلام آباد (ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ بھارت عصمت دری کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل عام میں ملوث ہے، مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن کے استعمال سے بچوں کی بینائی محروم ہونے پر بھی مغرب میں قبرستان سی خاموشی ہے، بھارت کشمیر میں ممکنہ رائے شماری کا فیصلہ اپنے حق میں نکالنے کے لئے مقبوضہ وادی کی ڈیموگرافی تبدیل کر رہا ہے، اقوام متحدہ مغربی اور امریکی امپیریل ازم پر رقص کرنے پر مجبور ہے۔ وہ ایک ایسا ادارہ بن چکا ہے جس کو جو جتنی فنڈنگ کرتا ہے وہ اسی کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، اقوام متحدہ عراق کے بارے میں قرارداد پر امریکی مقاصد کے لیے تو عملدرآمدکرا سکتا ہے تاہم کشمیر پر منظور شدہ اپنی قراردادوں پر اسکی آنکھیں بند ہیں، جو ادارہ ہمارے حقوق کا تحفظ نہ کر سکے ہمارا ایسے ادارے سے کیا تعلق؟۔ وہ ینگ پارلیمنٹینریز فورم برطانیہ اور یورپی پارلیمنٹ کے زیراہتمام سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ سیمینار سے وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر، رکن اسمبلی سردار اویس خان لغاری سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے جرائم دنیا کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ بھارتی قابض افواج معصوم کشمیریوں کو ان کے حقوق سے محروم کر رہی ہیں۔ تاہم اس معاملے پر دنیا اور اقوام متحدہ خاموش رہے۔ جب بھی کسی مسلم ممالک کا مسئلہ ہوتا ہے پاکستان آگے بڑھتا ہے۔ دوسری جانب او آئی سی کہتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کا باہمی مسئلہ ہے۔ ہم وہ تکالیف نہیں سمجھ سکتے جو مقبوضہ کشمیر کے عوام برداشت کر رہے ہیں کیونکہ ہم ان سے بچے ہوئے ہیں۔ اب اس جدوجہد کا بیڑہ پاکستان کی جانب سے پاکستان کی پارلیمان کو اٹھانا چاہئے۔ انسانی حقوق کمیٹی کو دیگر ممالک کی پارلیمان کے اندر وہاں کی انسانی حقوق کمیٹیوں کو کشمیر میں مظالم پر اعتماد میں لیں۔ ابھی تک ہم دنیا کو مسئلہ کشمیر کو پاکستان، بھارت باہمی تنازعہ کے طور پر باور کروا سکے ہیں۔ ہمیں بتانا ہو گا کہ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کی گہری جڑیں ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ کشمیر اور فلسطین کی تحاریک کو اکٹھا رکھا جائے۔ فلسطین کی انتفادہ اور کشمیر کی انتفادہ کو اکٹھے رکھنا ہو گا۔ مقبوضہ کشمیر پر ملک بھر میں ایک دستخطی مہم کے آغاز کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو اس ضمن میں ہم مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ گزشتہ 150روزسے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے اور مغرب اس پر ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ کیا بی بی سی اور سی این این کو مقبوضہ کشمیر میں کھیلی جانے والی کشت و خون کی ہولی نظر نہیں آ رہی۔ اگر ان کے ضمیر سوئے ہوئے ہیں تو ان کے ضمیروں کو جگانا ہو گا۔ انسانی حقوق تنظیمیں بھی مقبوضہ کشمیر پر بہری ہو چکی ہیں۔ وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر نے کہا کہ2009ئ‘ 2008ءاور 2016ءمیں کشمیریوں کی تین بڑی حالیہ تحاریک شروع ہوئیں۔ 2016 ءمیں مقبوضہ کشمیر میں ایک ڈرامائی تبدیلی نمایاں ہوئی۔ چھ ماہ گزرنے کے بعد بھی یہ تحریک ابھی تک جاری ہے۔ بھارتی حکومت کہتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 170عسکریت پسند فعال ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا 6 لاکھ بھارتی افواج صرف 170 عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لئے ہے۔ سارک کی ناکامی بھی کشمیر سے منسلک ہے۔ بھارت نے کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے سارک کو سبوتاژ کیا۔ پاکستان کے بھارت کے مقابلے کے لئے غیر روایتی ہتھیار ضروری ہیں۔ جنوبی ایشیا میں امن کے قیام کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین اور رکن اسمبلی سردار اویس خان لغاری کہاکہ یہ بات حقایق کے منافی ہے کہ ہم کسی ریاست سے کشمیر کی قراردادوں پر حمایت حاصل نہیں کر سکے۔ ترکی، آذربائیجان اور دیگر ممالک نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کی۔ ہم پاک چین اقتصادی راہداری کا حصہ ہیں اور دنیا میں تنہا نہیں ہیں۔ پاکستان دنیا کی دہشت گردی سے نمٹنے میں کامیاب تجربہ رکھنے والی طاقتوں میں شامل ہے۔ سیمینار سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں یاسین ملک نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ مقبوضہ کشمیرمیں حالیہ انتفادہ کے دوران بھارتی فورسز نے طاقت کاوحشیانہ استعمال کیا ہے۔ پانچ ماہ تک جاری رہنے والے انتفادہ کو کچلنے کیلئے انتظامیہ نے فوجی طاقت اور مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال کیا۔ بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس نے انتفادہ کے پہلے ماہ کے دوران تیرہ لاکھ پیلٹس (چھرے) فائر کرنے کا اعتراف کیا تھا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں کشمیری شہید اور انکی بینائی متاثر ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر کے ڈاکٹروں کے ایک تخمینے کے مطابق انتفادہ کے پہلے چار ماہ کے دوران پیلٹ گن سے تقریبا11سو 78 کشمیریوںکی آنکھوں میں زخم آئے۔ 2008ءاور 2010ءمیں بھی عوامی انتفادہ کو فوجی طاقت کے بل پر کچلاگیا اور 2016ءکے انتفادہ کو بھی طاقت کے وحشیانہ استعمال کا نشانہ بنایا گیا۔ بھارت جیسا غریب ملک سالانہ چالیس ارب ڈالر فوجی اخراجات پر خرچ کر رہا ہے اور ہر سال دفاعی اخراجات میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے‘ دیرینہ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل سے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن و سلامتی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔
سیمینار

ای پیپر-دی نیشن