• news
  • image

سڈنی ٹیسٹ میں بھی میزبان ٹیم کا پلڑا بھاری…2010ء کی تاریخ دھرائی جائیگی؟

چودھری محمد اشرف
پاکستان کرکٹ ٹیم کی دورہ آسٹریلیا میں مایوس کن کارکردگی کا سلسلہ بدستور جاری ہے جو برسبین اور میلبورن میں ہونے والی شکستوں کی صورت میں سڈنی میں بھی رکتا دکھائی نہیں دے رہا۔ قومی ٹیم اگر یہ ٹیسٹ میچ ڈرا کر گئی تو یہ بھی اس کی ایک کامیابی تصور کی جائے گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام قومی ٹیم کی اس کارکردگی پر چین کی بانسری بجا رہے ہیں اور پوری پاکستانی عوام کو یہ کہہ کر تسلی دے رہے ہیں کیا ماضی میں کبھی دورہ آسٹریلیا میں پاکستان ٹیم جیتی ہے جو اب کے بار جیت جائے گی۔ چیئرمین پی سی بی شہریار خان عمر کے جس حصے میں ہیں انہیں گھر میں آرام کرنے کی بجائے ایک ایسے عہدے پر بیٹھا کر کام لیا جا رہا ہے جہاں کسی سابق ٹیسٹ کرکٹر کو ہونا چاہئے تھا۔ چیئرمین پی سی بی شہریار نے اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ’’سرکاری‘‘ خرچ پر اپنا علاج کرایا ہے اور اب وہ تیزی سے صحت یاب ہو رہے ہیں تاہم ادھیڑ عمری کے باعث اب ان کے ہاتھ میں چھڑی آ گئی ہے۔ ان کو سہارا دینے والی یہ چھڑی دورہ آسٹریلیا میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں پر کب چلے گی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 2010 میں پاکستان کرکٹ ٹیم جب دورہ آسٹریلیا میں بری طرح شکستوں سے دوچار ہوئی تھی تو اس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ نے تحقیقات کرا کے قومی کھلاڑیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا تھا جس میں شعیب ملک اور نوید الحسن پر ایک ایک سال کی پابندی عائد کی گئی تھی جبکہ کامران اکمل، عمر اکمل سمیت چھ کھلاڑیوں پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ اس مرتبہ چیئرمین پی سی بی ایسا کرتے ہیں یا نہیں اس کے لیے دورہ کے ختم ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔ موجودہ وقت چیئرمین پی سی بی کی تمام توجہ گر اس روٹ لیول پر کرکٹ کی پرموشن پر لگی ہوئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم نیچے سے اپنی کرکٹ کو بہتر بناتے بناتے اوپر کی تمام کرکٹ کا بیڑا غرق کر بیٹھیں دہشت گردی کے واقعات کی بنا پر پہلے ہی ہمارے ملک میں کرکٹ نہیں ہو رہی ایسے میں سینئر ٹیم جو کہ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی رینکنگ میں انتہائی پستی میں چلی گئی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اس کا شمار نچلی ٹیموں میں نہ ہونا شروع ہو جائے۔ پھر شاید ہم ماضی کو یاد کرکے ہی اپنی قوم کو بتایا کریں گے کہ پاکستان ٹیم بھی دنیا کی نمبر ون ٹیم ہوا کرتی تھی جیسا کہ آج کل ہم قومی کھیل ہاکی کے بارے میں کہتے ہیں۔ پی سی بی ایگزیکٹو کمیٹی نجم سیٹھی جن کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ بورڈ کے تمام فیصلے خود کرتے ہیں ان کی تمام توجہ تو پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کے انعقاد پر لگی ہوئی ہیں۔ جس کے بارے میں وہ اعلان کر چکے ہیں کہ اس کا فائنل میچ لاہور میں ہو گا۔ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہو گا یا نہیں یہ ابھی آنے والے مزید چند روز میں واضح ہو جائے گا بہرکیف مجھ سمیت قوم کی دعا ہے کہ فائنل لاہور میں ہو جو ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا ایک ذریعہ بن سکے۔ جہاں تک قومی ٹیم کے دورہ آسٹریلیاکی بات ہے تو اس میں پاکستان ٹیم دو ٹیسٹ ہار چکی ہے تاہم اظہر علی اور سینئر تجربہ کار بلے باز یونس خان نے ٹیسٹ سیریز میں کرکٹ کی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اظہر آسٹریلیا کی سرزمین پر ڈبل سنچری سکور کرنے والے پہلے کھلاڑی بن چکے ہیں جب کہ یونس خان نے بھی اپنا نام ریکارڈ بک میں درج کرا لیا ہے۔ یونس خان دنیا کے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں جنہوں نے 11 ممالک میں سنچری سکور کرنے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے۔ یونس خان نے سڈنی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں ناقابل شکست 175 رنز بنائے۔ یہ ٹیسٹ کرکٹ میں ان کی 34 ویں سنچری تھی جو پاکستان میں کسی بھی کھلاڑی کی سب سے زیادہ سنچریاں ہیں۔ یونس خان کو ٹیسٹ کرکٹ میں دس ہزار رنز مکمل کرنے کے لیے مزید 36 رنز کی ضرورت ہے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ اسی ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں یہ کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ورنہ انہیں اگلی کسی ٹیسٹ سیریز کا انتظار کرنا پڑے گا۔ سیریز میں پاکستان ٹیم کیے باولنگ اٹیک نے بہت مایوس کیا ہے خاص طور پر یاسر شاہ اور محمد عامر نے۔ ٹیسٹ سیریز میں قومی کھلاڑیوں کی پرفارمنس کے علاوہ میزبان ٹیم کے ڈیوڈ وارنر نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں نئے ریکارڈ بنائے ہیں۔ سڈنی ٹیسٹ کی پہلی اننگز کے ایک سیشن میں کھانے کے وقفے سے پہلے سنچری سکور کر کے دنیا کے پانچویں کھلاڑی بن گئے ہیں جنہوں نے یہ کارنامہ سرانجام دے رکھا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کے ماجد خان کا بھی نام شامل ہے۔ امارات میں ویسٹ انڈیز کے خلاف عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرکے دورہ آسٹریلیا کے لئے قومی ٹیم میں جگہ بنانے والے سمیع اسلم اور بابراعظم قوم کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے ہیں ان دونوں کھلاڑیوں سے بہت زیادہ توقعات تھیں۔ بہرکیف دونوں کھلاڑیوں کو سلیکشن کمیٹی نے مسلسل موقع دیا ہے اور ابھی مزید ان کا اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں عدم تسلسل کی وجہ سے پوری قوم کو شرمندگی کا سامنا رہتا ہے۔ پی سی بی نے بھاری معاوضے پر جس ٹیم مینجمنٹ کو رکھا ہے اس سے بھی سوال پوچھا جائے کہ اس نے کھلاڑیوںکی خامیوں پر قابو پانے کے لئے کیا کام کیا ہے۔ اگر کوچنگ سٹاف نے صرف جمع تفریق ہی کرتے رہنا ہے اور کھلاڑیوں کی خامیوں پر قابو نہیں پاتا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر ملکی کوچز کو ہٹا کر سابق قومی کرکٹرز کو بااختیار بنا کر موقع فراہم کیا جائے۔ پی سی بی حکام کی جانب سے بنائی جانے والی سلیکشن کمیٹی کتنی بااختیار ہے اس بارے میں ہر کوئی کہتا ہے کہ سلیکشن کمیٹی کی بنائی جانے والی ٹیم کو چیئرمین پی سی بی شہریار خان بھی تبدیل نہیں کرتے ہیں۔ کرکٹ آئین کے تحت چیئرمین پی سی بی کو ہی حتمی ٹیم اور کپتان کے نام کی منظوری دینے کا اختیار ہے اگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس کے پیچھے کیا منتق ہے اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے۔ دوسری جانب سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ میں ہم آہنگی دکھائی نہیں دیتی جو مسائل کا سبب بن رہی ہے۔ سڈنی کی وکٹ پر ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو بھی اچھی اور بڑی اننگز کھیلنی چاہئے تھی مگر پہلی اننگز میں ایسا نہ ہو سکا۔ اگر قومی ٹیم سڈنی ٹیسٹ بھی ہار جاتی ہے تو اس کے بعد پی سی بی حکام اپنی سیٹوں کو بچانے کے لئے ٹیم کا آپریشن کلین اپ کریں گے۔ سڈنی ٹیسٹ کا آج آخری روز ہے جس میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے 465 رنز کے ہدف کے تعاقب میں اپنی دوسری اننگز 55 رنز ایک کھلاڑی آوٹ سے دوبارہ شروع کرنی ہے۔ پاکستان ٹیم کی نو وکٹیں باقی ہیں پاکستان ٹیم کو کسی صورت بھی اس ٹیسٹ میں جیت کے لیے نہیں جانا چاہیے اگر پاکستان ٹیم ٹیسٹ میچ ڈرا کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ اس کی فتح ہی ہوگی۔ سینئر کھلاڑیوں کو ذمہو داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا خاص طور پر یونس خان، کپتان مصباح الحق اور اسد شفیق کو۔ آج ہفتہ کے روز سڈنی میں ہلکی بارش کا بھی امکان ہے جو میچ شروع ہونے سے ایک گھنٹہ قبل متوقع ہے جبکہ باقی سارا دن بادل چھائے رہیں گے جس کا میزبان ٹیم کے باولرز بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ میلبورن ٹیسٹ میں تجزیہ نگاروں کے تمام تجزیئے آسٹریلوی باولرز نے غلط ثابت کر دیئے تھے اب دیکھنا ہے کہ پاکستانی بلے باز ان کی حکمت عملی کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن