63 ویں نیشنل ہاکی چیمپیئن شپ … پی آئی اے مسلسل تیسری بار فاتح
چودھری شاہد حسن
پاکستان ہاکی فیڈریشن کے عہدیداران کو تقریباً ڈیڑھ سال کے زائد کا وقت ہو گیا ہے، ابھی تک کسی بڑے ایونٹ میں قومی ٹیم کو شرکت کا موقع نہیں ملا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فیڈریشن کے حکام کو کسی تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ویسے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈئر (ر) خالد سجاد کھوکھر کی صحت بھی کافی ناساز ہے جس کی بنا پر وہ ہاکی سرگرمیوں پر توجہ چھوڑ کر اپنا علاج کرانے میں مصروف ہیں، اﷲ تعالٰی انہیں صحت اور تندرستی عطا کرئے۔ دوسری جانب پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری اولمپیئن شہباز احمد اپنا ہاکی تجربہ استعمال کرتے ہوئے ڈومیسٹک ہاکی پر خاص توجہ دے رہے ہیں ان کی کوشش ہے کہ ملک میں زیادہ سے زیاد۔ ایونٹس کا انعقاد کیا جائے تاکہ کھلاڑیوں کا پول بڑھایا جا سکے۔ اسی بنا پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی 63 ویں نیشنل ہاکی چیمپیئن شپ 2016-17ء کا انعقاد لاہور میں کرایا گیا جس میں صرف اور صرف محکمہ جاتی ٹیموں کو شرکت کرائی گئی۔ افسوس کے کسٹم حکام نے اپنی ٹیم کو پیسوں کا بہانہ بنا کر چیمپیئن شپ میں شرکت نہیں کرائی جبکہ کسٹم سے تعلق رکھنے والے وسیم فروز اور فرحت خان پاکستان ہاکی فیڈریشن کی سلیکشن کمیٹی کے ممبران جبکہ طارق ہدیٰ ایگزیکٹو بورڈ میں شامل ہیں۔ اس کے باوجود ان کی ٹیم کا چیمپیئن شپ میں شرکت نہ کرنا افسوس کا مقام ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان فوجی فاونڈیشن نے بھی اپنی ٹیم بنائی ہے تاہم کھلاڑیوں کا مناسب پول نہ ہونے کی بنا پر اس کی ٹیم شریک نہ ہوسکی۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے مصدق خان کو چیمپیئن شپ کا ٹورنامنٹ ڈائریکٹر مقرر کیا تھا جنہوں نے انتھک محنت سے چیمپیئن شپ کا کامیاب ایونٹ منعقد کرایا۔ چیمپیئن شپ میں 13 محکموں کی ٹیموں نے شرکت کی جن میں پی آئی اے، نیوی، ریلویز، واپڈا، سوئی سدرن گیس کمپنی، ایچ ای سی، نیشنل بنک، پورٹ قاسم اتھارٹی، پولیس، پی ٹی وی، آرمی، سوئی نادرن گیس پائپ لائن اور پی اے ایف شامل تھیں۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ہر ٹیم کو زیادہ سے زیادہ میچز فراہم کرنے کے لیے پہلے مرحلے کے بعد سپر ایٹ مرحلے کے ذریعے ٹیموں کو سیمی فائنل اور فائنل میچ کھیلنے کا موقع دیا۔ چیمپیئن شپ کے سپر ایٹ مرحلے کے بعد نیشنل بنک، پی آئی اے، سوئی سدرن گیس کمپنی اور واپڈا کی ٹیموں نے سیمی فائنل مرحلے کے لیے کوالیفائی کیا۔ جہاں نیشنل بنک نے سوئی سدرن گیس کو جبکہ پی آئی اے نے واپڈا کو شکست دیکر فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ فائنل میں پی آئی اے نے سخت مقابلے کے بعد پنلٹی شوٹ آوٹ پر نیشنل بنک کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ تیسری پوزیشن کے میچ میں سوئی سدرن گیس کمپنی نے واپڈا کو ہرا کر وکٹری سٹینیڈ تک رسائی حاصل کی۔ چیمپیئن شپ کے سیمی فائنلز اور فائنل میچ کو دیکھنے کے لیے شائقین کی بڑی تعداد سٹیڈیم میں موجود تھی۔ پی آئی اے ٹیم جو زیادہ تر سینئر کھلاڑیوں پر مشتمل تھی مقررہ وقت تک نیشنل بنک جو جونیئر کھلاڑیوں پر مشتمل تھی کو شکست دینے میں ناکام رہی تاہم پنلٹی شوٹ آوٹ پر سینئرز نے تجربہ کی بنا پر اپنی ٹیم کو کامیابی دلائی۔ سابق اولمپیئنز اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔ اکثریت کا کہنا تھا کہ فائنل میچ کو دیکھ کر پاکستان ہاکی کا معیار سب کے سامنے آ گیا ہے۔ سابق لیجنڈ کپتان اولمپیئن منظور جونیئر کا کہنا تھا کہ فائنل دیکھ کر مایوسی ہوئی ہے پاکستان ہاکی کا معیار انتہائی گر چکا ہے جو کسی طور پر بھی انٹرنیشنل مقابلوں کے قابل ن ہیں رہا ہے۔ سابق سیکرٹری پنجاب ہاکی ایسوسی ایشن اجمل خان لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو نوجوان کھلاڑیوں کا پول بڑھانا ہوگا جبکہ ڈیپارٹمنٹس کو بھی اب اپنی ٹیموں میں نئے خون کو شامل کرنا ہوگا۔ خاص طور پر پی آئی اے اور واپڈا جن میں سینئر کھلاڑیوں کی اکثریت ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو جونیئرز کے زیادہ سے زیادہ ایونٹ آرگنائز کرانے چاہیے تاکہ کھلاڑیوں کا نیا پول سامنے آ سکے۔ فاتح پی آئی اے ٹیم کے کوچ شاہد علی خان نے بھی اپنی مینجمنٹ کو اشارہ دیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پی آئی اے ٹیم میں نئے کھلاڑیوں کو شامل کیا جائے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن پر بھاری ذمہ داری عائد ہے کہ وہ قومی کھیل کے لیے تمام وسائل بروکار لاتے ہوئے ماضی کی گلوری کو واپس لائے، ڈائریکٹر ڈومیسٹک اینڈ ڈیویلپمنٹ نوید عالم نے ملک میں کلب ہاکی کی بحالی کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس میں وہ کامیاب جا رہے ہیں، اگر اکیڈمیاں نہیں بنانی تو کم از کم ملک میں کلب ہاکی کو پرموٹ کرنا ضروری ہے۔ سینئرز کے ساتھ ساتھ جونیئر انڈر 16 اور انڈر 18 کلب ہاکی چیمپیئن شپ کے انعقاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔