ذرا پھر اسلام آباد
اسلام آباد میں ہوں مگر یقین کریں سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کا ”منڈوا“ دیکھنے نہیں گیا کہ ایک تو اکیڈمی آف لیٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر قاسم بوگیو نے بڑی محبت سے چار روزہ ادبی کانفرنس میں مع آنے جانے کے بھاڑے اور کھانے کے بلایا ہوا ہے اور دوسرے چاروں صوبوںسے آئے ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کی کہکشاں ارد گرد بکھری ہوئی ہے۔ اسلام آباد ہوٹل کے جس کمرے‘ کونے میں جائیں۔ ایک جھمگٹا سر جوڑے خوش گپیوں میں مصروف ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے تین دن میں کسی ایک نے بھی پاناما لیکس میں جاری سرکس کا ذکر نہیں کیاجس پر اسکرینوں نے 24/7 اودھم مچایا ہوا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاناما لیکس پر ایک ہی جیسے چہروں باتوں بلکہ بدزبانیوںاور بد لگامیوں کے دکھانے والوں کو اتنی فرصت نہیں کہ کوئی پانچ دس منٹ اِدھر کا بھی رُخ کرے جہاں ایک ایک دن میں آٹھ آٹھ سیشنوں میں ہماری قومی زبان اردو اور چاروں صوبائی زبانوں کے ممتاز و محترم ادیب، شاعر اور دانشور عالمانہ فاضلانہ مقالے پڑھ رہے ہیںاور جن پر خوب خوب گرما گرم مباحثے ہو رہے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس پر ہمارے میڈیا کے ہی سرخیل کالم نگار اور اینکر حضرات یہ رونا دھونا کرتے ملتے ہیں کہ جناب لوگ لکھ پڑھ ہی نہیں رہے۔ کتابوں اور رسائل و جرائد کا کلچر ہی نہیں۔ کوئی ایسے ادیب شاعر ہی نہیں رہے کہ جنہیں اسکرین پر دکھا کر ریٹنگ لائی جائے۔ بجا فرمایا حضور ریٹنگ کی دوڑ میں پاکستانی معاشرے کی بخیہ گری کرتے رہےں۔ معصوم بچے بچیوں کے کھلے زخموں اور چیخوں کو اس وقت تک جب تک کوئی نئی ایان علی یا قندیل بلوچ نہ مل جائے بیچتے رہیں۔ مسابقت اور ریٹنگ کی دوڑ میں اس وقت ہماری اسکرینوں پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے۔ اس پر افسوس یہ ہوتا ہے کہ پیمرا سمیت کوئی سرکاری‘ غیر سرکاری ادارہ آواز اُٹھانے والا نہیں۔ ارے یہ مجھے کیا ہو گیا۔ یہ کیا ”ہذیان“ سے صفحہ سیاہ کر رہا ہوں۔ ہئے ہئے باہر کیسا خوشگوار موسم ہے۔ ہلکی ہلکی پھوار، خُنک ہواﺅں میں جھولتے سرسبز و شاداب درخت وطنِ عزیز کے چھوٹے بڑے شہروں سے آئے ہوئے ہنستے کھلکھلاتے ادیب، شاعر اور دانشور۔ یہ لیجئیے ہاتھ میں چھڑی ہے مگر بلکہ کمر سیدھی کئے سیاہ سوٹ پر سُرخ ٹائی لگائے منو بھائی چلے آرہے ہیں۔ میں نے پوچھا ساٹھ برس تو روزانہ کالم لکھتے ہوئے ہو گئے۔ مخصوص انداز میں مسکراتے ہوئے کہنے لگے جی ہاں آپ کی پیدائش سے پہلے اور یہ لیجئے مُستنصر حسین تارڑ بھی نظر آگئے۔ نوجوانوں کا ایک ہجوم ارد گرد ہے۔ کسی نے سوال کیا۔۔۔ اتنے سفر کئے اتنے ڈھیر سارے سفرنامے لکھے تھک نہیں گئے؟ کہنے لگے ابھی ساری دنیا کہاں دیکھی ہے کوئی آٹھ شہر رہتے ہیں جن کا سفر باندھنے کی تیاری کر رہا ہوں۔ اور یہ لیجئے ایران سے افتخار عارف بھی آگئے۔ میں نے یہ نعرہ لگاتے ہوئے استقبال کیا۔۔۔ افتخار عارف نئی منزل کی تیاری کرو
کہنے لگے جی ہاں مجھے نئی منزلوں پر بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں اور خود 24 گھنٹے اسکرین سے لگے بیٹھے ہوتے ہیں۔ تو اے عزیزو! اب تم ہی کہو ایسے موسم اور ایسے پیارے لوگوں کو چھوڑ کے کون کالے کوٹوں کی کڑوی کسیلی تقریریں سننے سپریم کورٹ جائے۔