• news
  • image

تین اور دو

تین اور دو پانچ ہوتے ہیں۔ فیصلہ پانچ نے کرنا ہوتو تین کی اکثریت کی رائے فیصلہ اور دو کی رائے محض اختلاف رائے بن جاتی ہے۔ مگر فیصلہ فیصلہ ہوتا ہے اور اختلاف رائے محض اختلاف رائے۔ عمل درآمد فیصلے پر ہوتا ہے اختلاف رائے پر نہیں۔ اکثریتی فیصلوں کا ایک فریق کو نقصان اور دوسرے کو فائدہ ہوتا ہے مگر جب معاملہ سیاسی ہوتو دونوں فریق خوش ہوتے ہیں۔ ایک سالن کی پوری پلیٹ سے پیٹ بھر لیتا ہے تو دوسرا شوربے سے۔ اس طرح باورچی بھی باعزت رہتا ہے۔ تو جناب مقدمہ جیتنے والا فریق اکثریتی فیصلے کو چوم چوم کر جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی کو سلام پیش کرتا ہے اور مقدمہ ہارنے والا اقلیتی اختلاف رائے کی بنیاد پر اپنا سیاسی سودا خوشی خوشی بیچتا رہتا ہے یہ سوچ کر کہ اگر اس کے خلاف فیصلہ پانچ اور صفر کی اکثریت سے آتا تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ یوں مکمل انصاف (Complete Justice) کا "سانپ" بھی مر جاتا ہے اور نظام عدل کی لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی۔ ظاہر ہے ایک کرپٹ معاشرے میں مکمل انصاف کا مطالبہ کسی زہریلے سانپ کی پھنکار سے کم نہیں ہوتا جو بااختیار، مفاد پرست اور طاقتور حکمرانوں کی جان کے درپے ہوتا ہے۔ ایسے میں لازمی ہے کہ حقائق کو اتنا مبہم رکھا جائے کے متفقہ فیصلوں کی بجائے اکثریتی فیصلوں کا جواز بن سکے اور یوں مقدمہ ہارنے اور جیتنے والے فریقین کے پاس جگالی کے لئے کچھ نہ کچھ موجود رہے۔ سچ تک پہنچنے کیلئے زمینی حقائق نہیں زیر زمین حقائق کی تلاش ضروری ہوتی ہے۔ زیر زمین حقائق تک پہنچنے کے لئے جہاں کھدائی کے لئے درست جگہ کا انتخاب ضروری ہے وہاں ایک وقت میں ایک بیلچے کو ایک خاص انداز میں چلانا بھی تحقیق کا بنیادی اصول ہے۔ ایک منتخب جگہ پر ایک وقت میں ایک کی بجائے پانچ یا دس بیلچوں سے کھدائی کرنے سے نہ تو تمام زیر زمین حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے اور نہ ہی کھدائی جلدی ہوتی ہے۔ پانامہ اسکینڈل جیسے معاملات کی تحقیقات کے لئے آثار قدیمہ کے ماہرین جیسی مہارت کی ضرورت ہے نہ کہ بیلچوں اور کدالوں والے مستری اور مزدوروں کی جن کے اوزاروں سے کھدائی کم ہوتی ہے اور شور زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ مگر شاید زیر زمین شواہد واضح طور پر سامنے آنے سے اکثریتی فیصلے کرنے میں مشکل پیدا ہو جائے گی اور متفقہ فیصلے کی صورت میں کوئی ایک فریق منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ اس صورتحال میں لگتا ہے کہ گڑے مردے اکھاڑنے پر دونوں فریقین ہی راضی نہیں کہ نجانے ایسا کیا نکل آئے جو ان کو جھوٹا ثابت کر دے۔ اور اگر قبر کھود دی گئی تو پھر واضح اور ٹھوس متفقہ فیصلوں کے ذریعے کسی ایک فریق کی سیاست کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ جس کے لئے بہت فہم و فراست اور جرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کیا پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون بھی اس صورتحال کے لئے تیار ہیں ؟ بظاہر نہیں۔ پی ٹی ائی کے پاس الزامات کے ٹھوس شواہد نہیں اور حکمران نون لیگ کے پاس اپنے دفاع کے دستاویزی ثبوت۔ اپنی اپنی ناکامی کے خوف اور مصدقہ شواہد کے حصول میں قانونی پیچیدگیوں کے باعث یہ معاملہ بھی ماضی کی طرح ٹھوس شواہد پر متفقہ فیصلے کی بجائے ایک اکثریتی سمجھوتے کی جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے جس میں تینوں فریقوں کی عزت رہ جائے گی۔ تینوں فریقین سے مراد تاریخ اور عوام کی عدالت میں موجود تین فریق یعنی تحریک انصاف، مسلم لیگ نون اور ہماری عدلیہ۔ یوں ماضی کی طرح اس مقدمہ کا اصل فیصلہ بھی عوام اور تاریخ کی عدالت ہی کرتی نظر آرہی ہے۔ پانامہ کیس میں موجودہ سماعت کو اور کیا سمجھا جائے۔ ایک پہاڑی ہے اور گاو¿ں کے لوگوں کا ہجوم تماشائی بنا کھڑا ہے۔ چند مزدور ہیں جو اپنے اپنے بیلچے لئے پہاڑی کے اوپر اور نیچے کی طرف دوڑ لگا رہے ہیں۔ پہاڑی کی کسی ایک منتخب جگہ پر کھدائی کی بجائے اسے گدگدایا جا رہا ہے۔ ایک مزدور کبھی چوٹی پر جا کر چٹان سے بیلچہ ٹکراتا ہے تو لوہے اور پتھر کے ٹکراو¿ کی گونج سے ہجوم میں تجسس پیدا ہوتا ہے اور لوگ بھی پہاڑی کی چوٹی کی جانب چل پڑتے ہیں۔ پھر ایک دوسرا مزدور پہاڑ کے دامن میں ایک اور چٹان پر بیلچہ مارتا ہے اور چوٹی پر پہنچے لوگ اسی رفتار سے ہانپتے کانپتے نیچے آ پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے نکلا کچھ نہیں بیلچہ ہی ٹوٹ گیا۔ اسی اثنا میں تین دوسرے مزدور بھی پہاڑ کے دوسری سمت چٹانوں پر وار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کھدائی کا کام زور و شور سے جاری ہے اور عوام پہاڑی پر اوپر نیچے بھاگتے بھاگتے تھک چکے ہیں اب مزدوروں کے لئے بھی فیصلے کی گھڑی تیزی سے آرہی ہے۔ ہجوم کو بیلچوں کی آوازوں کے پیچھے بھگا بھگا کر نڈھال کرنے والوں کو کوئی خبر تو دینی ہی ہے۔ اور چونکہ اتنے شور شرابے کے بعد مناسب کھدائی بھی نہیں ہو سکی تو راستہ ایک ہی بچتا ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ نہ سنایا جائے کہ جو کسی ایک فریق کی سیاسی موت کا باعث بنے۔ اور لوگ مشتعل ہو جائیں۔ بہتر یہی ہے کہ مزدور حضرات باآواز بلند ایک دوسرے سے اختلاف کرلیں اور فیصلہ تکنیکی اکثریت پر کر کے یہ بوجھ عدلیہ کی کاندھوں سے اتار پھینکیں۔
جوں جوں وقت گذرتا جارہا ہے توں توں ہجوم کا تجسس بڑھتا جا رہا ہے اور درست جگہ پر سنجیدہ کھدائی ہے کہ ابھی شروع ہی نہیں ہوئی۔ ایک رکنی عدالتی کمیشن کی باتیں ہوا ہوتی جا رہی ہیں چٹانوں پر بیلچوں کے ٹکراو¿ کی آواز نے ایسی موسیقی پیدا کر رکھی ہے کہ مزدور اور ہجوم خود ہی اس پر جھومنا شروع ہوچکے ہیں۔ فریقین اور ہجوم یہ بھول چکے یں کہ ان کا مقصد زیر زمین حقائق کی تلاش تھا جس کے لئے ایک عدالتی کمیشن بننا تھا۔ اس عدالتی کمیشن نے تمام دستیاب دستاویزات کی تصدیق اور مزید دستاویزات کی طلبی کے علاوہ متعلقہ گواہان و ملزمان کے بیانات قلمبند کر کے اپنی حتمی رائے اور سفارشات سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کو دینی تھیں جس پر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے فیصلہ سنانا تھا۔ مگر پھر سیاسی نزاکتوں اور مصلحتوں کا شکار تحریک انصاف بھی کمیشن کے مطالبے سے نہ صرف دستبردار ہوگئی ہے بلکہ کمیشن کا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ہے۔ پھر عدالت میں انصاف کی تحریک کے محرک اعظم عمران خان یہ بھی فرماتے ہیں کہ ان کا کام محض الزام لگانا ہے اور شواہد اکٹھے کرنا عدالت کا کام ہے تو جناب کمیشن بنائے بغیر سپریم کورٹ کے پانچ معزز جج از خود کیسے حقائق اکٹھے کر سکتے ہیں۔ تفصیلی تحقیقات کے بعد کسی کمیشن سے نواز شریف کو کلین چٹ ملنے کے خوف سے خان صاحب نے کمیشن کی شاہراہ پر یو ٹرن لے لیا ہے اور انھیں ایک اکثریتی فیصلے میں "راہ نجات" نظر آ رہی ہے۔ دوسری طرف میاں صاحب کو بھی کسی کمیشن کے سامنے ان سوالوں کے جواب نہیں دینے پڑیں گے۔ جن کے جواب شاید ان کے پاس ہیں ہی نہیں۔ اور تیسری طرف گورکن بھی جانتا ہے کہ پچیس سال پرانی دفنائی لاش کی محض ہڈیاں ہی ملیں گی اور عوام خوامخواہ اسے مورد الزام ٹھرائیں گے۔ اس تمام صورتحال میں مبہم حقائق کے ساتھ اکثریتی فیصلہ تمام فریقین کے مفاد میں ہوگا چاہے وہ فریقین آج کی عدالت میں ہیں یا عوام اور تاریخ کی عدالت میں۔ اور ویسے بھی رہے نام اللہ کا اور پھر سیاستدانوں کا۔ باقی سب تو چند سال کے لئے ہی آتے ہیں۔

مطیع اللہ جان....ازخودی

مطیع اللہ جان....ازخودی

epaper

ای پیپر-دی نیشن