• news
  • image

انتخابی اصلاحات،وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے!!!

2017ءآگیا انشاءاللہ 2018ءبھی آجائے گا اور پھر اسی پرانے فرسودہ نظام کے تحت جنرل الیکشن ہوں گے پھر کنٹینرز کی صفائیاں شروع ہو جائیں گی۔ کارکن نئے پارٹی ’ڈریس‘ کا انتظام کریں گے۔ نئے نعرے بنیں گے قائدین کی وہی دھمکیاں ہوں گی۔ نظام کو بدلو، نظام کو بدلو، ورنہ کفن پہن کے نکلیں گے ورنہ حکمرانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ورنہ حکمرانوں کا وہ حشر کریں گے جسے تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ ورنہ نظام کو لپیٹ دیںگے وغیرہ وغیرہ یعنی وہی شعبدہ بازیاں ہوں گی اور کارکنوں کا خون گرم رکھنے کے لیے نت نئے ترانے بنائے جائیں گے۔ 2013ءکے الیکشن ختم ہوئے ساڑھے تین سال کا عرصہ گزر گیا۔ اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ الیکشن اصلاحات لائی جائیں۔ پارلیمانی کمیٹیاں بنائی گئیں، چار حلقے کھولے گئے،عدالتی کمیشن بنا، جس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ منظم دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ چند اداروں سے سنگین غلطیاں سرزد ہوئیں۔ پھر معاملہ ٹھنڈا ہوگیا اور خدا بھلا کرے پانامہ لیکس والوں کا۔ پھر 2016ءمیں سب اپوزیشن اسی کے پیچھے لگ گئی اور الیکشن اصلاحات ”کھٹائی “ میں ڈال دی گئی ۔ بالکل ایسے لگا جیسے جان بوجھ کر عوام کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہو۔ اب عام انتخابات کے انعقاد میں تقریباً سواسال کا عرصہ رہ گیا ہے مگر بدقسمتی سے پارلیمنٹ اور عوامی فورمز پر ہونے والے بحث مباحثے کے باوجود انتخابی اصلاحات نہیں لائی جا سکی ہیں۔ نہ ہی احتساب کے قوانین میں کوئی تبدیلی ممکن ہوئی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جولائی 2014میں انتخابی اصلاحات کے لئے بننے والی پارلیمانی کمیٹی نے 90روز میں اپنا کام مکمل کرکے رپورٹ پارلیمنٹ میں جمع کروانی تھی اور اس کمیٹی میں اپوزیشن سمیت حکومتی اراکین شامل تھے ۔ مگر ایک تو کمیٹی کی میٹنگز تسلسل سے نہ ہو سکیں۔ دوسرا ارکان کی سیاسی نیت بھی کمزور تھی اور تیسرا دوسرے سٹیک ہولڈروں سے مشاورت بھی نہ کی جا سکی یوںکمیٹی اپنا کام مکمل کرنے میں ناکام ہو گئی۔ اس پر اس نے ایک سب کمیٹی قائم کردی۔ جو اپنے چھ اجلاسوں میں انتخابی قوانین میں صرف ایک سفارش کو حتمی شکل دے سکی۔ جس کے تحت الیکشن کمیشن کو پولنگ عملے پر کنٹرول دینا تجویز کیا گیا ہے۔حیرت یہ ہے کہ پارلیمانی کمیٹی کو اب تک الیکشن کمیشن اور سول سوسائی کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے سلسلے میں 316 سفارشات مل چکی ہیں۔ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا اور اصلاحات انتخابات سے قبل ممکن بھی ہوں گی یا نہیں۔ اس بارے میں فی الحال یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ آئین کے تحت دیانتدارانہ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس ذمہ داری کی انجام دہی انتخابی قوانین کے تابع ہے جو ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ جب تک ان میں عوامی خواہشات اور آئینی تقاضوں کے مطابق ترامیم نہیں کی جاتیں موجودہ صورت حال جوں کی توں رہے گی اور حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نورا کشتی چلتی رہے گی اور ہم یوں ہی لڑتے رہیں گے۔
مجھے یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہی ہے کہ ہمارے ہاں لیڈرز کے چناﺅ کا طریقہ کار بدلنے میں نہ تو حکومت ہی سنجیدہ نظر آتی ہے ۔ الیکشن کمیشن اور نہ ہی اپوزیشن۔ سیاسی گیمیں کھیلی جا رہی ہیں۔ اس لیے سب کو فکر ہے کہ کہیں نئے نظام میں ان کی چھٹی نہ ہوجائے اور ہارنا کسی کو بھی اچھا نہیں لگتا۔یہ پارٹیاں آج تک نہ تو ووٹرز کو باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور نہ ہی ان کا اعتماد بحال کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور اس حوالے سے کبھی اقدامات ہی نہیں کیے جا سکے کہ ہمارا ووٹنگ ٹرن آﺅٹ 40فیصد سے آج تک بڑھا کیوں نہیں ہے۔ مجھے بتائیں کہ جس ملک میں ووٹر ٹرن آﺅٹ ہی چالیس فیصد ہو۔ یعنی 60فیصد عوام اس سسٹم کوہی پسند نہ کرتی ہو اور نہ گھر سے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتی ہو تو وہاں کے قائدین کا حال کیا ہوگا۔ وہاں پھر ایسے ہی کرپٹ سیاستدان براجمان ہوں گے۔ حالانکہ تھائی لینڈ میں ووٹ نہ ڈالنے والے کو بی کلاس شہری کا درجہ دیا جاتا ہے۔یعنی بی کلاس شہری ہونے کا مطلب آپکو بینک لون، لائسنس اور دیگر مسائل کا سامنا کر نا پڑ سکتا ہے۔ اسلامی ملک ایران میں آپ نے اگر ووٹ نہ ڈالا ہوتو اس حوالے سے آپ جوابدہ ہوتے ہیں کہ ووٹ کیوں نہیں کاسٹ کیا۔ فرانس میں گزشتہ انتخابات میں فرانس میں 17فیصد عوام نے ووٹ نہیں ڈالا۔ تو یہ خبر فرانس کے بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر چھپی ۔وہاں موجود الیکشن کمیشن فکر مندتھا کہ اس قدر ووٹرز نے ووٹ کیوں نہیں کاسٹ کیا۔ وہاں کی حکومت ہر الیکشن کے بعد ووٹ نہ دینے والے شہریوں کا تجزیہ کرتی ہے اورپالیسی بناتے ہیںتاکہ اگلے الیکشن میں ان ووٹروں کوووٹ کاسٹ کرنے پر کیسے مجبور کر سکیں۔
حقیقت میں ہمارا آمرانہ ذہن جانتا ہے‘ ہمارے ملک میں جب بھی انتخابی اصلاحات ہوں گی اس دن ہماری آمرانہ سوچ‘ آمرانہ جمہوریت اور آمرانہ لیڈر شپ کا بستر گول ہو جائے گا‘ ملک میں اس کے بعد فوج آ سکے گی اور نہ ہی خاندانی سیاسی جماعتیں ”باریاں“ لگا سکیں گی اور یہ ریاستی اداروں کو ”وارہ“ کھاتا ہے اور نہ ہی شمشیر ابن شمشیر ابن شمشیر لیڈروں کو چنانچہ ملک میں الیکشن اصلاحات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ بھارت کے 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹر ہر پانچ سال بعد اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں‘ بھارت کا الیکشن سسٹم خاصا متاثر کن ہے‘ ہم اگر ملک میں فرنچ‘ برٹش‘ امریکن یا آسٹریلین الیکشن سسٹم نافذ نہیں کرسکتے تو نہ کریں مگر ہم اپنے ہمسائے سے بے شمار چیزیں سیکھ سکتے ہیں‘ انڈیا کا الیکشن کمیشن خودمختار بھی ہے اور با اختیار بھی۔ (جاری)

یہ الیکشن کے دوران ہر قسم کا حکم جاری کرسکتا ہے اور سرکاری مشینری اس حکم پر عملدرآمد کی پابند ہوتی ہے‘ بھارت میں الیکشن سے قبل نگران حکومت نہیں بنتی‘ پرانی حکومت چلتی رہتی ہے‘ صدر‘ وزیراعظم اور وزراءاعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز رہتے ہیں‘ یہ خود مختار الیکشن کمیشن کی وجہ سے الیکشن پر ایک فیصد اثر انداز نہیں ہو پاتے۔ انڈیا میں 28 ریاستیں (صوبے) ہیں‘ وفاقی اسمبلی (لوک سبھا) کے الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں ۔ 81 کروڑ چالیس لاکھ ووٹروں کے انگوٹھوں اور انگلیوں کے نشان الیکشن کمیشن کے ڈیٹا بینک میں موجود ہیں‘ ووٹر پولنگ اسٹیشن پر جاتا ہے‘ مشین پر اپنی انگلی رکھتا ہے اور اس کا ووٹ کھل جاتا ہے۔ اسکرین پر امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان بھی آ جاتے ہیں‘ یہ انگلی سے کسی ایک انتخابی نشان کو ٹچ کر دیتا ہے اور اس کا ووٹ کاسٹ ہو جاتا ہے‘ یہ اس کے بعد ملک کے کسی حصے میں دوبارہ ووٹ نہیں ڈال سکتا۔ مشین دوسری بار اس کا ووٹ قبول نہیں کرتی۔ کسی سیاسی جماعت کو نتائج پر اعتراض ہو تو یہ فیس جمع کرا کر پورا ڈیٹا دیکھ سکتی ہے‘۔ملک کا ایک ایک ووٹ اس کے سامنے آ جاتا ہے‘ سیاسی جماعتیں اور امیدوار حلقے میں بینر لگا سکتے ہیں‘ پوسٹر لگا سکتے ہیں اور نہ ہی چاکنگ کر سکتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروانا ہمالیہ کو سر کرنے کے برابر ہوتا ہے۔ہمارا الیکشن سسٹم اس کام کو اتنا مشکل بنا دیتا ہے کہ ہارنے والا امیدوارلاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی انصاف سے محروم رہتا ہے۔ ہم اگر بھارتی الیکشن کمیشن کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس میں تین خوبیاں نظر آتی ہیں‘ ایک‘ الیکشن مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں ہوتے ہیں‘ اس سے الیکشن کمیشن کو نتائج جمع کرنے میں سہولت ہوتی ہے‘ یہ ایک مرحلہ مکمل کرنے کے بعد دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتے ہیں‘ یوں عملہ بھی کم درکار ہوتا ہے اور وسائل بھی کم خرچ ہوتے ہیں‘ دو‘ بائیو میٹرک سسٹم کی وجہ سے دھاندلی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ کم وقت میں زیادہ ووٹ بھگت جاتے ہیں‘ پولنگ اسٹیشنز پر زور آزمائی اور دھونس کے واقعات بھی نہیں ہوتے‘ پولنگ اسٹیشنز پر ووٹوں کی گنتی نہیں ہوتی‘ ووٹ سینٹرل ڈیٹا میں چلے جاتے ہیں اور کمپیوٹر ان کی کاو¿نٹنگ کرتا ہے یوں پولنگ اسٹیشنوں پر ہیرا پھیری کا امکان ختم ہو گیا۔
آپ دور نہ جائیں بلکہ گذشتہ دو سالوں میں لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سالانہ الیکشن”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“کے تحت ہی ہوئے ہیں جن میں آخری الیکشن مکمل طور پر اِسی سسٹم کے تحت تھا۔اِس سلسلہ میں اب اِس سسٹم کا دائرہ وسیع کیا جارہا ہے جس میں پنجاب بار کونسل پنجاب بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے ممبران کا بائیو میٹرک اندراج تیزی سے کررہی ہے جس میں نئے اور پرانے دونوں ہی ممبران شامل ہیں اور جب یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا تو اِس سے ”دوہرے اندراج“ والے ووٹرز کا بھی خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ چند بار ایسوسی ایشنز کم فاصلے پر موجود ہونے کی وجہ سے کئی ووٹرز کا اندراج دونوں جگہ موجود ہے جس کی وجہ سے ”بائیو میٹرک ووٹنگ سسٹم“ کے اندراج کا آغاز کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اس سلسلے میں کیا کررہی ہیں؟ عمران خان کو چاہیے کہ فوری طور پر الیکشن اصلاحات کے حوالے سے اسمبلی میں تجاویز پیش کریں تاکہ مکمل نہیں تو کچھ اصلاحات اگلے الیکشن میں نافذالعمل ہو سکیں ورنہ بادی النظر میں حکومت تو یہی چاہے گی کہ پرانے الیکشن سسٹم کے تحت ہی انتخابات ہوں اور میاں صاحب بھی اگر ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو انھیں محسوس ہو گا کہ انتخابی اصلاحات پر عمل درآمد کروانے سے وہ خود بھی مضبوط ہوں گے۔ کیوں اگر ایک چیز کا سسٹم بنادیں اور ہمسایہ ممالک کو ہی اس حوالے سے رول ماڈل بنالیں تو اس میں کوئی مزائقہ نہیں ہے مگر خدارا اس حوالے سے ضرور اصلاحات کریں وگرنہ عوام میں وہ سکت نہیں رہی کہ اب دوبارہ کوئی نیا شور شرابہ پیدا ہواور دنیا تماشا دیکھے۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭

epaper

ای پیپر-دی نیشن