مشرف کو جواب نوازشریف نہیں دینگے تو کون دیگا: جاوید ہاشمی
اسلام آباد (محمد نوازرضا ‘ وقائع نگار خصوصی) سینئر سیاستدان وسابق وفاقی وزیر مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنی خود نوشت ”زندہ تاریخ“ میں لکھا ہے بے نظیر بھٹو 1990ءمیں جنرل اسلم بیگ کے پاس جی ایچ کیو آئیں تو انہوں نے نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی تجویز دی تاہم جنرل اسلم بیگ نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اس گفتگو کا جی ایچ کیو میں ریکارڈ موجود ہے اور جنرل مرزا اسلم بیگ کے پاس بھی موجود ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اس بات کی تردید نہیں کی البتہ جنرل مرزا اسلم بیگ پر الزام عائد کیا کہ وہ 12 ارب ڈالر میں پاکستان کا ایٹمی پروگرام ایران کو فروخت کرنے کےلئے تیار تھے۔ جنرل اسلم بیگ نے اسے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے ایران کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ساری قوم آبپارہ والوں سے ڈرتی ہے اب اسے ڈرانے والے میدان میں آ گئے۔ لندن میں کچھ جرنیلوں نے شہباز شریف سے رابطہ کیا اور چودھری نثار علی خان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو پرویز مشرف کے کارگل موقف کے خلاف اعلان شدہ پریس کانفرنس کرنے سے روکدیا، سے بہت سے سوالات ذہن میں ابھر رہے ہیں۔ پرویز مشرف کا جواب نواز شریف نہیں دیں گے تو کون دیگا؟ جدہ جانے والے فیصلے کی طرح ایک بار پھر ایسا فیصلہ تونہیںکیا جا رہا جس کے بعد پچھتانا پڑے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ججوں کی بحالی کیلئے وکلاءکی تحریک کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے دوبئی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی ملاقات بارے میں لکھا کہ میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی حکومت مذاکرات میں اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت حزب اختلاف کو تقسیم کرنا چاہتی ہے جو کسی صورت میں بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ میرا بھی یہی خیال ہے جو جماعت مشرف سے ڈیل کریگی قوم اسے معاف نہیں کرے گی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں علامہ مشرقی کی کتاب ”تذکرہ“ کا ذکر کیا ہے جو نامور صحافی شبیر شاہ نے تحریر کی۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے جیل میں علامتی بھوک ہڑتال کی۔ انہوں نے 3 بڑے واقعات کا آنکھوں دیکھا حال لکھا ہے۔ ایک انضمام کی ہیرو کی طرح ریٹائرمنٹ تھی، دوسرا واقعہ جسٹس بھگوان داس کا چیف جسٹس کے طور پر کردار اور تیسرا واقعہ لندن میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی لندن میں ملاقات ہے جس کے میثاق جمہوریت ہوا جس میں پاکستان میں ملکر بحالی جمہوریت کرنے کا عہد کیا گیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے لکھا ہے کہ چیف جسٹس افتخار چودھری نے لکھا ہے کہ انہیں طویل عرصہ کے لئے بیرون ملک طویل رخصت پر بھیجنے کی سفارش کی گئی لیکن انہوں نے باہر جانے سے انکار کر دیا بالآخر ان کی بحالی کی جدوجہد‘ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر طارق فضل جیل میں انکے پاس میاں نواز شریف کا پیغام لے کر آئے کہ میمونہ کو لندن کانفرنس میں ضرور شرکت کرنی چاہئے۔ انہوںنے پیپلز پارٹی سے مسلم لیگ (ن) کے تعلقات کار میں اختلاف برائے پر بھی روشنی ڈالی ہے اور کہا کہ پارٹی میں کچھ لوگ مسلم لیگ (ن) سے پارٹی کو الگ کرنے پر زور دیتے رہے جبکہ میاں نواز شریف زیادہ سے جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے حامی تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ”میرا دل بلوچستان کے حالات پر روتا رہتا ہے میں اگر جیل میں نہ ہوتا تو وانا اور وزیرستان میں ہوتا۔ مخدوم جاوید ہاشمی کا پسندیدہ کھانا ”میتھی کا ساگ“ ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے بارے میں کہا ہے ”چوہدری نثار علی خان ایک زیرک ذہن اور موقع شناس سیاسی کردار ہیں، اپنے یا پرائے انہیں اپنی راہ میں حائل ہوتے نظر آئیں تو انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے گرُ آزمانے کا فن جانتے ہیں ، وہ پارلیمانی پارٹی کے لیڈر بننا چاہتے تھے۔ میری بدقسمتی کہ مجھے وہ اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ نواز شرےف کی واپسی پر جھاگ کی طرح بیٹھ جاو¿ں گا۔ جب نوازشریف پاکستان واپس آئے تو میں نے کبھی وزیر بننے کا سوچا ہے اور نہ ہی وزیراعظم ‘ صدر پاکستان ۔میری جدوجہد کا ثمر نوازشریف کی پاکستان آمد اور جمہوریت کا ارتقا ہے میں کسی کی راہ میں روڑے کیسے اٹکا سکتا ہوں ۔ انہوں نے لکھا ہے میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف کی سیاست میں میری کوئی حیثیت نہیں۔ شرےف برادران کو فوجی اور غیر فوجی حلقوں مےں متعارف کرانے کا سہرا چوہدری نثار کے سر ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ چوہدری نثار کی تمام صلاحیتیں میاں صاحبان کیلئے وقف تھیں۔مسلم لیگ پر لندن گروپ کا مکمل کنٹرول تھا۔ میں زبان بھی نہیں کھول سکتا تھا، میں نے میاں نوازشریف سے بارہا کہا کہ چوہدری نثار جیل میں ملنے نہیں آتے اس سے پارٹی کے اندر اختلافات کی خبریں اڑتی رہتی ہیں۔ انہوں نے لکھا راجہ محمدظفر الحق نے کارگل پر زبان کھولی تو جنرل پرویز مشرف تلملا اٹھا۔